Quote ustaad said: View Post
یہ آپ کی خوش فہمی کا علاج میرے پاس نہیں ہے

برائے مہربانی آیت کا ترجمہ و تفسیر اپنی مرزائیت کے مطابق کریں
سب پر اللّھ کی سلامتی ھو۔

اُستاد صاحب؛

یہ آپ کی خوش فہمی کا علاج میرے پاس نہیں ہے۔

اگر یہ میری خوش فھمی ھے۔کہ حیاتِ مسیحِ النساء سےثابت نھیں ھوتی۔
تو میری بڑی بد قمسمتی ھے۔کے آپ کہ پاس کوئ علاج(جواب) نھیں۔
اور آپ حیاتِ مسیحِ کو النساء سے ثابت نھیں کر سکتے۔
میں لاعلاج نھیں بلکہ آپ جواب نھیں دے پا رھے۔
نھیں تو آپ ایک مرتبہ حیاتِ مسیح کو النساء سے ثابت کرنے کی کوشش ضرور کرتے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

برائے مہربانی آیت کا ترجمہ و تفسیر اپنی مرزائیت کے مطابق کریں۔

اُستاد صاحب؛

میں نے اپنی ثابقہ پوسٹ میں یہ لکھا تھا کہ۔۔ ۔ ۔

اگر میں النساء 157،158 کی تفسیر لکھتا ھوں۔اور بلفرض آپ میری تفسیر کو غلط ثابت کر دیتے ھیں۔
تو کیا النساء سے حیاتِ مسیح ثابت ھو جاے گی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کتنا غیر ضروری/احمکانہ مطالبہ(سوال) ھے۔
یا پہر آپ بھی النساء 157،158 سے حیاتِ مسیح ثابت نھیں کرسکتے اسلیے یہ مطالبہ(سوال) کر کے
ھمیں موضوع سے ھٹانا چاھتے ھیں
۔

میں پھر کھتا ھوں۔ کہ احمدیت/ قادیانیت/مرزاعیت کی تفسیر بلفرض آپ غلط ثابت کر دیتے ھیں۔
تو کیا النساء سے حیاتِ مسیح ثابت ھو جاے گی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

وہ لوگ جو احمدیت/ قادیانیت/مرزاعیت کےمخالف ھیں۔ اور وفاتِ مسیح کے
قاعل ھیں مثلاً غامدی صاحب(زندہ مثال) ۔اُنھیں کیا کھیں گے۔ کہ احمدیت/ قادیانیت/مرزاعیت کی تفسیر ( النساء 157،158 ) غلط ثابتکر دی ۔اسلیے
حیاتِ مسیح النساء 157،158 سے ثابت ھو گئ۔یہ کیسی دلیل ھے۔؟؟؟؟؟
----- - - - ---------------------------------

آب کے بار بار مطالبے پر النساء 157،158 کی تفسیر موضوع کے مطابق حاظر ھے۔ اور یہ اُمید( خوش فہمی) کرتا
ھوں کہ آپ موضوع سے ھٹیں گے نھیں۔ کیونکہ آپ کے بار بار کے مطالبے پر النساء 157،158 کی تفسیر لکھ رھا ھوں۔
اس لئے آپ کا فرض ھے کہ اس وجہ سے مجھے بین نہ ھونے دیں۔ ۔ ۔

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ الخ النساء 157،158

ترجمہ :اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے قتل کیا ہے مسیح عیسی بن مریم کو جو رسول ہیں اللہ کے حالانکہ نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ مصلوب کیا اسے بلکہ معاملہ مشتبہ کردیا گیا ان کے لئے اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس معاملہ میں ضرور مبتلا ہیں شک میں اس بارے میں اور نہیں ہے انہیں اس واقعہ کا کچھ بھی علم سوائے گمان کی پیروی کے اور نہیں قتل کیا ہے انہوں نے مسیح کو یقینا بلکہ اٹھالیا ہے اس کو اللہ نے اپنی طرف۔


نوٹ؛
اس آیئت کرمیہ کی تفسیر لکھنے سے پھلے یھود اور نصارہ کے عقائد جاننا ضروری ھیں۔

یھودکےمطابق؛
یھود کے نزدیک صلیب پر مرنے والا لعنتی موت مرتا ھے۔اس لیئے صلیب پر مرنے والا شخص نبی نھیں ھو سکتا۔

عیسائیوں کےمطابق؛
عیسٰی مسیح لوگوں کےگناھوں کےلئے صلیب پر فوت ھوا۔اور ایک قبر کےاندر دفن کیا گیا۔اور تیسرے دن وہ ایک
جلالی بدن کے ساتھ مُردوں میں سے جی اٹھا اور اپنے شاگردوں اور دوسرے گواھوں پر چالیس دن تک اپنے آپ کو
ظاھر کرتا رھا۔ اور پھر اپنے شاگردوں کے دیکھتے دیکھتے بادلوں میں آسمان پر اُٹھا لیا گیا۔


تفسیر ؛ النساء 157،158

:اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے قتل کیا ہے مسیح عیسی بن مریم کو جو رسول ہیں ۔

اس آیئت کریمہ میں واضح طور پر آیت کریما کے نزول کی واحد وجہ اور بنیادی مقصد کو بیان کیا گیا ھے۔
اس آیت کریما کے نزول کی واحد وجہ یھود کا یہ دعواع
” کہ ھم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا“کی نفی کرنا ھے۔
اور اس دعواع کو رد کرنا ھی بنیای مقصد ھے۔

حالانکہ نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یھود قتل نیں کر سکے۔

اور نہ مصلوب کیا۔

اھل یھود کے نزدیک صلیب پہ مرنا ایک لعنتی موت ھے۔
اسلیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیب پر موت کی نفی کی گئ۔
یعنی یھود کی یہ دلیل کہ صلیب پر مرنے والا(لعنتی موت) نبی نہیں ھو سکتا۔
اس دلیل کو رد کیا۔

بلکہ معاملہ مشتبہ کردیا گیا ان کے لئے

مشتبہ کردینے سے یہ صاف ظاھر ھوتا ھے۔کہ واقع صلیب ھوا تھا۔
لیکن اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پہ فوت ھونے سےبچا لیا تھا۔
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب صلیب ے اُتارا گیا تو وہ زندہ تھے۔
جبکہ یھود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردہ تصور کر لیا۔
اس طرح یھود پر معاملہ مشتبہ کردیا گیا تھا ۔


اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس معاملہ میں ضرور مبتلا ہیں شک میں اس بارے میں
اور نہیں ہے انہیں اس واقعہ کا کچھ بھی علم سوائے گمان کی پیروی کے
۔


ضرور مبتلا ہیں شک میں کھ کے یہ ظاھر فرمایا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یھود نے
صلیب سے اتارا تو یھود نے ظاھری حالات کو دیکھتے ھوے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردہ تصور (گمان) کیا۔
یعنی یھود یقین سے نھیں کھہ سکتے ۔
کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یھود نے صلیب سے اتارا تو حضرت عیسیٰ وفات پا چکے تھے۔
بلکہ یھود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ظاھری حالت دیکھ کر یہ گمان/اندازہ/قیاس کیا تھا ۔کہ
حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے۔ کیونکہ اللہ دلوں کے حال جانتا ھے۔اسلئے اللہ ھم پر یھود کے دلوں
کا حال ظاھر فرماتا ھے۔ کہ یھود لازماً (ضرور) اس معاملے (صلیب پر موت)) میں شک میں مبتلا ھیں۔
اس شک کی وجہ چاھےحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے شاگردوں اور دوسرے گواھوں کے یہ بیان ھوں کے اُنھوں
نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ دیکھا یا کوئ اور وجہ ۔
باھر حال یھود کا یہ نظریہ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر فوت ھو گئے تھے شک کی بنیاد پر ھے۔

اور نہیں قتل کیا ہے انہوں نے مسیح کو یقینا۔

یھود کا داعوع جو کہ شک ک بنیاد پر ھے۔ اِس دعواع کے مقابل یقینناً کا لفظ استعمال کر کے شدت کے ساتھ
اِس دعواع کو رد فرما دیا کہ یھود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے میں کامیاب ھو گئے تھے۔

بلکہ اٹھالیا ہے اس کو اللہ نے اپنی طرف۔

رَّفَعَهُ کے معینی درجات میں بلندی قرآنِ پاک سے ثابت شدہ ھے۔
اللَّـهُ إِلَيْهِ کا مطلب اللہ کی طرف ھے۔
چونکہ اللہ ھر جگہ موجود ، لامحدود،اور جسم سے پاک ھے۔ اس لیے جسمانی طور پر اللہ کی طرف نھیں بن سکتی۔
اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسمانی طور پر اللہ کی طرف حرکت کریں۔
تو اس کے لیے ضروری ھے۔کہ اللہ واقع صلیب کے وقتحضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دور فاصلے پر ھو۔
جس کے لیئے اللہ کو محدود اور مجسم تصور کرنا پڑے گا۔جو کے دینِ اسلام کےبنیادی عقایئد کے خلاف ھے۔
اس لئے رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ کو صرف روحانی( درجات میں بلندی،قربِ الھئی )مانا جائے گا۔

دلیل کےطور پر چند جملے حاظر ھیں۔
ھدایئت اللہ کی طرف سے ھے۔
اگر بندہ اللہ کی طرف چل کر جاتا ھے۔تو اللہ بندے کی طرف دوڑ کر آتا ھے۔
اگر بندہ اللہ کی طرف ایک قدم چل کر جاتا ھے تو اللہ بندے کی طرف ستر قدم قریب آتا ھے۔
ان تمام جملوں میں اللہ کی طرف سے مراد صرف روحانی سمت ھے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے رَّفَعَهُ کے استعمال کے وقعت اللَّـهُ إِلَيْهِ (روحانی سمت) کی قید لگا کر بڑی حکمت کے
ساتھ عیسایئوں کا عقیدہ کہ واقع صلیب کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اُٹھا لیا گیا تھا۔ کی نفی
کر دی گئی۔ اسی لئے قرآن پاک میں جھاں کھیں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کا ذکر ھوا ھے۔ واھاں اللَّـهُ إِلَيْهِ
کی قید لگادی گئی۔تا کہ رفع کو جسمانی تصور نہ کیا جا سکے۔
-----------------------------------------------------------------

اُستاد صاحب؛

آپ سے رخواست ھے کہ میں نے آپ کے بار بار کے مطالبے پر احمدیت/ قادیانیت/مرزاعیت کے نظریات کے مطابق تفسیر النساء 157،158 )

لکھی ھے۔ اس لئے مجھے بین نہ کیا جائے۔

جواب کا منتظر۔