پاکستان میں جعلی پیر، عامل اور درویش


جعلی عاملوں کے ہاتھوں سادہ لوح عوام کیسے لٹتے ہیں؟

آستانوں کی آڑ میں کیا دھندے ہوتے ہیں؟


دو کی تاریخ انسانی تاریخ کی مانند بہت قدیم ہے جادو ایک علم ہے جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں

وسوسے پیدا کر کے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکایا جاتا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ جادو کابانی ابلیس تھا جس نے انسانوں کے

دلوں میں وسوسے ڈالے اور انہیں گمراہ کرنے کا چیلنج کیا تھا اور خدا نے اس کے وسوسوں سے بچنے کی تاکید کی Name:  2i1labr.jpg
Views: 1655
Size:  31.1 KB

Name:  6roye9.jpg
Views: 1413
Size:  13.3 KB

Name:  fvbd3t.jpg
Views: 2088
Size:  35.1 KB

Name:  11gt5jd.jpg
Views: 1572
Size:  25.2 KB
دور میں سامری جادو گر بہت مشہور تھا مگر حضرت موسی کی خدائی طاقت اور ایمان کے سامنے اس کی تمام شعبدے بازیاں کام نہ کر

سکیں ۔




وقت کے ساتھ ساتھ جیسے حق کی قوتیں کام کرتی رہیں ویسے ہی بدی کی طاقتیں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھاتی رہیں اور

بدی کا ساتھ دینے

والے شیطانی علوم سے عوام الناس کو مختلف مصائب میں مبتلا کرتے رہتے ہیں یہ لوگ نہ صرف کالے علم کی مختلف اقسام جیسے جنتر،

منتر اور تنتر سے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر گمراہ کرتے ہیں بلکہ گندی روحوں ، موکلوں اور د یگر کالی شکتیوں جیسے ہنومان

،کھیترپال ،بھیرو، ناگ دیوتا ، لوناچماڑی، چڑیل، لکشمی دیوی ، کالا کلوا ، پاروتی دیوی ، کلوسادھن، پیچھل پیری ،ڈائن ،ہر بھنگ آکھپا

جیسی دیگر فرضی بلاؤں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر ایک دوسرے کا مخالف بنا دیتے ہیں اور اس کے عوض ان سے

ہزاروں روپے بٹورتے ہیں جبکہ بعض چالباز اور دولت کے پجاری عامل زہر سے لکھ کر تعویز دیتے ہیں جس کو گھول کر پینے والا نہ

صرف مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے بلکہ بسااوقات ہلاک ہو جاتا ہے اور بعض اوقات زہر کے اثر کی وجہ سے پاگل

ہوجاتاہے اور بعض اوقات عالم دیوانگی میں خود کشی کر کے ہلاک ہوجاتا ہے ۔لاہور شہرکاکوئی ایسا محلہ ،گلی ،بازار یا علاقہ نہیں ہے کہ

جہاں پر کالے علم کے ذریعے کام کرنے والے جادوگر موجود نہ ہوں۔




آستانوں میں عامل اور جعلی پیر تعویذوں کو اصلی زعفران سے لکھنے کے لیے بھاری رقم طلب کرتے ہیں۔ بکروں کا صدقہ دینے کے لیے

بھی رقم طلب کی جاتی ہے۔ ان مبینہ جعلی پیروں اور نجومیوں کے چکر میں آکر خواتین اپنے زیوارات گنوا بیٹھتی ہیں جبکہ ان آستانوں میں

مبینہ طور پر خواتین کو بے آبرو کرنے کے بھی واقعات پیش آچکے ہیں۔



عام آدمی کی طرح ہمارا حکمران طبقہ بھی اس طرح کے لوگوں سے کافی متاثر رہا ہے ۔جنرل ایوب ہوں یا جنرل یحییٰ ،ذوالفقار علی بھٹو ہوں

یا جنرل ضیاء الحق سے لیکر بے نظیر بھٹو ،نواز شریف اور سابق وزیر اعظم جمالی اور جنرل پرویز مشرف تک تمام حکمران پیروں فقیروں

کے زیر اثر رہے ہیں ۔ یہ بحث الگ ہے کہ ان حکمرانوں کے ان پیروں کے ثقہ ہونے کا کیا ثبوت ہے۔


ایک رپورٹ کے مطابق ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سیاستدان علمی سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اور یہ کمزوریاں انہیں

کسی نہ کسی روحانی درگاہ لے جاتی ہیں ۔رپورٹ کے مطابق میر ظفر اللہ جمالی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیر آباد کے

علاقے سیدنگر میں سیدعمران حیدر زیدلی کے گھر جاپہنچے ۔وفاقی وزیر داخلہ مخدوم فیصل صالح حیات دربار شاہ جیونہ کو مسائل کا حل

قراردیتے ہیں ۔


سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو بابا تنکا سے چھڑیاں مرواتے رہے اور وزیر اعظم بنتے رہے جس کے عوض

نواز شریف نے پہلے دور میں بابا تنکا کے دربار پر3کروڑ روپے سے پختہ سڑک جبکہ دوسرے دور میں حج کروایا اور انہیں نواز شریف

کے داماد کیپٹن صفدر کندھوں پر اٹھاکے ہیلی کاپٹر تک لے گئے۔جنرل ضیاء الحق جنرل ایوب بابا ملتانی کے عقیدت مندوں میں شامل رہے

۔ضیاء الحق تو اپنے ایک پیر سے ملنے ضلع حافظ آباد کے گائوں سولپور تارڑ کے قریب متکیے بھی آتے رہے۔



جنرل پرویز مشرف کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ جب وہ کورکمانڈر منگلا تھے تو انکا ہاتھ دیکھ کر ماہر نجوم اسحق نور نے انہیں آرمی

چیف بننے کی خوشخبری دی تھی۔





اسی طرح ایک شخص خواجہ سلمان جو اپنے مخصوص نظریات کے متعلق لٹریچر مختلف جگہوں پر تقسیم کرتا نظر آتا ہے اس کے تقسیم کردہ

لٹریچر میں بتایا گیا ہے کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین، ان کا بھائی، جسٹس افتخار حسین، بھتیجا چوہدری فرخ الطاف ناظم

جہلم، چوہدری شجاعت، شیخ روحیل اصغر، شیخ نعیم امجد،پیپلز پارٹی لاہور کے عزیر الرحمان چن، الماس دولتانہ اور ہزاروں سیاست دانوں

اور افسران بدنام زمانہ عنایت سائیں باغبان پورہ لاہور اور ایم اقبال نجومی گونجرانوالہ سے جادو اور شیطانی عمل کرواتے رہے ہیں۔ اور ان

کو لاکھوں روپے معاوضہ دیا جاتا۔ مذکورہ جادوگر اور ان کے چیلے ان سیاستدانوں کو بلیک میل کرتے ۔





کالاجادو کرنے والوں نے سندھ، راولپنڈی اور پنجاب کے صوبائی دارلحکومت لاہور بھی میں ہزاروں کی تعداد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

لاہور شہر میں 5 ہزار سے زائد افراد نے جادو ٹونے کرنے کے ڈیرے بنائے ہوئے ہیں جبکہ بہت سے

لوگوں نے یہ دھندا اپنے گھروں پر

شروع کیا ہوا ہے۔ معاشی اور سماجی بے چینیوں میں مبتلا لوگ روزی اور روٹی کی طلب میں ان باتونی اور چالباز عاملوں کی باتوں میں آ کر

نہ صرف حقیقت کی دنیا سے دور ہو جاتے ہیں بلکہ اپنا دین اور ایمان بھی گنوادیتے ہیں جبکہ خواتین اپنی عزتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں

۔دیکھتی آنکھوں اس ہونے والے ظلم اور زیادتی کے خلاف نہ کبھی کسی مذہبی یا سماجی تنظیم نے ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کی اور نہ ہی

کسی سرکاری ادارے نے ان کے خلاف کاروائی کی۔