Name:  12195789_1020985077944244_6440169394072213371_n.jpg
Views: 321
Size:  44.7 KB


یہ تصویر ہمارے پڑوسی ملک چین کی ہے۔ جہاں آئے روز بجلی پیدا کرنے کے نت نئے طریقے دریافت کیے جا رہے ہیں۔ کہیں لفٹوں کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے تو کہیں کچرے کے ذریعے بجلی بنائی جا رہی ہے۔ یہ اور اس جیسے دیگر ممالک اس بجلی سے نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ آئے روز نئے نئے منصوبوں کا آغاز کر کے خوشحالی کا سفر تیزی سے طے کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ جس رفتار سے ہماری ضروریات بڑھ رہی ہیں اسی رفتار سے بجلی کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں آئے روز مِلیں،فیکٹریاں اور سازوسامان کے کارخانے بند ہو کر غربت بے روزگاری اور جرائم کی شرح میں خطرناک اضافہ کر رہے ہیں۔ لاہور چیمبرکےسابق عہدیدار عبدالباسط کے مطابق "ملک میں ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت اس وقت بھی موجود ہے۔ بجلی کا مسئلہ نہ ہو تو 25 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ 100 ارب ڈالر تک پہنچا سکتے ہیں"۔ بجلی پیداوار کی کمی کا ایک بڑا سبب کالا باغ ڈیم کا بھی ہے۔ ہم سے ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ ہم نے کالا باغ ڈیم بنانا بھی ہے یا نہیں؟ ویسے اگر یہ ڈیم بن جائے تو اس کا پانی ملک میں ان زمینوں کو بھی سیراب کر سکتا ہے جو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بنجر ہیں۔ اس کی تعمیر سے تقریباً 3600 میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکتی ہے جو پاکستان کی توانائی کے مسائل ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ چوں کہ اس ڈیم کی حمایت میں صرف پنجاب تھا باقی سارے صوبے اس منصوبے کے مخالف تھے لہذا پنجاب نے اس منصوبہ پر اپنے موقف میں نرمی لاتے ہوئے کالا باغ منصوبہ سے حاصل ہونے والی وفاقی سطح پر آمدنی سے حصہ وصول نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن پھر بھی دوسرے صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ بدقسمتی سے پورے پاکستان میں ایک تکنیکی مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دوسرے صوبوں کے بعض سیاسی رہنما یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ "حکومت کو کالا باغ ڈیم بنانے کیلئے ہماری لاشوں سے گزرنا ہو گا"۔ ملکی تعمیر و ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو ہم خود ہیں پھر کہتے ہیں امریکا نے یہ کر دیا اور انڈیا نے وہ کر دیا۔ ذرا سوچیے! ہمارے یہ رویے ملک کو تباہی سے بچا سکتے ہیں ؟