گذر گیا اب وہ دور ساقی، کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہاں میخانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
کبھی جو آوارہ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہوگا
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کرکے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری، تو پھر کسے اعتبار ہوگا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اسکا بندہ بنوں گا جسکو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
یہ رسم بزم فنا ہے اے دل، گناہ ہے جنبشِ نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری، جو تو یہاں بیقرار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو،خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پایئدار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روماکی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہشیار ہوگا]
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کاروارں کو
شرر فشاں ہوگی آہ مری نفس مرا شعلہ بار ہوگا
Bookmarks