اسلام و علیکم
غصہ اور جارحیت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اسے کسی مقصد کے حصول میں رکاوٹ پیش آئے ہو یا اپنی خواہش اور رضا مندی سے وہ جو کچھ کرنا چاہے نہ کر سکے۔
عام طور پر لوگ غصے میں دوسروں پر بہت سی زیادتیاں کر جاتے ہیں جس کے باعث وہ دوسروں اور خود اپنے لئے مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ غصے کو کنٹرول کرنے کے بہت سے طریقے ماہرین نفسیات نے بیان کئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی اچھے انسان تیار کرنا تھا۔ آپ نے غصے کا یہ حل تجویز فرمایا کہ جب کسی کو غصہ آئے تو وہ اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ اسی طرح آپ نے غصے کی حالت میں وضو کر کے اسے ٹھنڈا کرنے کا حکم دیا۔
بہت سے اہل علم نے یہ مشورہ دیا ہے کہ غصہ کرنے والے انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس کائنات میں اس کی حیثیت ہی کیا ہے۔ کیا وہ اپنے خالق کی ناراضی اور غضب کا سامنا کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے اپنی کم مائیگی کا احساس ہو گا اور اس کا غصہ کنٹرول ہو جائے گا۔
یہ سب تجاویز اس وقت کے لئے ہیں جب انسان غصے کی حالت میں ہو۔ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے سرے سے غصہ ہی نہ آئے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے اپنی توقعات کو کم سے کم سطح پر لے جائے۔ غصہ آنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان دوسروں سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کر لیتا ہے اور جب وہ پوری نہیں ہوتیں تو افسوس اور غصہ آ جاتا ہے۔ جتنی کم توقعات ہوں گی اتنا ہی افسوس اور غصہ کم آئے گا۔
انسانی دماغ بہت سے کیمیکلز سے مل کر بنا ہوا ہے۔ جب ان کیمیکلز میں کچھ کمی بیشی ہوتی ہے تو انسان کو بات بات پر غصہ آ جاتا ہے جو بسا اوقات نہایت ہی شدت اختیار کر جاتا ہے۔ دوسری جسمانی بیماریوں کی طرح یہ بھی ایک بیماری ہے۔ ایسی صورت میں فوراً کسی ماہر سائیکاٹرسٹ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں لوگ بالعموم دماغی امور کے ماہرین کے پاس جاتے ہوئے گھبراتے ہیں کیونکہ اس صورت میں انہیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ لوگ انہیں پاگل سمجھیں گے۔ یہ ایک غلط سوچ ہے۔ کیمیکلز میں کمی بیشی ایک نارمل بات ہے جو کہ کسی بھی انسان کو پیش آ سکتی ہے۔ جس طرح ہم نزلہ زکام کا علاج کرتے ہیں، اسی طرح دماغ کا علاج کروانے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)۔
حکمت و دانش کے حصول کا پہلا مرحلہ خاموشی ہے، دوسرا مرحلہ سننا ہے، تیسرا مرحلہ یاد رکھنا ہے، چوتھا مرحلہ اس پر عمل کرنا ہے اور پانچواں مرحلہ اس کی تعلیم دینا ہے۔ سلیمان بن جبرائیل
Bookmarks