Bhai 1st year ki kitab prh lo ap agr nahi to Dr tahir ul Qadri ka 2016 Ka aalmi milaad confrance sun lo or sab sy pahly Baba aadm ny khana kaba tamer kia tha phir Baba aadm ny hi betul muqads bnaya tha khana kaba ky 40 saal bad phir hazrt dawod or hazrat suleeman ny usi bunyad or betul muqdas ko phir tameer kia
Sent from my SM-G361H using ITD Mobile App
hum to Aaj tak jitna parhtey , suntey aur samajhtey Aaye us ke mutabiq Qibla e Awwal Bait ul Muqaddas ko he kaha jata hai ,, anyways ,, ye koi itni bari baat nahi in sha ALLAH jald main mazeed pta kar lunga apney sources se in sha ALLAH ,, ab Aap ne ek baat kahi to ignore nahi karun ga ,, aur baad mein Aapko Aagah bhi karun ga in sha ALLAH,, jazakALLAH
G zro pta krna allah apki suchai sy aagah kry aamen
Sent from my SM-G361H using ITD Mobile App
Aapki baat ja jawab ye hai
NO.1
بیت المقدس اور مسجد اقصی کی تاریخ
بیت المقدس یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی شہر حضرت عیسٰی کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلی قبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔
بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی۔
قدیم تاریخ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620ء میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سليمان علیہ السلام (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔
ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586 ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت عزیر علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔
بخت نصر کے بعد 539 ق م میں شہنشاہ فارس روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کر دیے۔
137 ق م میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نےعیسائیت قبول کر لی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔
مسلم تاریخ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے،2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔
1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔
جدید تاریخ اور یہودی قبضہ پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیےاسے "دیوار گریہ" کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بھی بنا رکھا ہے۔
مسجد اقصی
مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا الحرم القدسی الشریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے -
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔
مسلم تعمیرات --- جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔
مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سليمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نمازپڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ “
سانحہ بیت المقدس 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ ۔ صلاح الدین نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں گے۔
اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) قائم کر دی۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہوگئی۔
یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا -
NO.2
خانہ کعبہ کی موجودگی کے باوجود بیت المقدس کو قبلہ کیوں* بنایا گیا؟
موضوع: متفرق مسائل
سوال پوچھنے والے کا نام: نعیم اختر مقام: انڈیا
سوال نمبر 3740:
السلام علیکم! میرے چند سوالات ہیں: (1) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں* خانہ کعبہ موجود تھا لیکن آقا علیہ السلام نے بیت المقدس کی طرف رخ* کر کے نماز پڑھائی، اس کی علت کیا ہے؟ (2) خانہ کعبہ حضرت ابراہیم کے زمانے میں موجود تھا تو مذاہب سماویہ میں بیت المقدس کی طرف رخ* کرنے کا حکم کب ہوا؟ خانہ کعبہ اور بیت المقدس کی جانکاری کے لیے کوئی کتاب بتا دیں؟
جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
رسولِ خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں قیام فرما رہے اس وقت نماز پڑھتے ہوئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس انداز میں کھڑے ہوتے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں آپ کے سامنے ہوتے۔ مگر ہجرتِ مدینہ کے بعد اس ترتیب کو قائم رکھنا ممکن نہ تھا، کیونکہ مدینہ طیبہ سے یروشلم اور مکہ مخالف سمتوں میں تھے۔ اگر مکہ کی طرف رُخ کیا جاتا تو یروشلم کی طرف پشت ہوتی اور اگر یروشلم کی طرف رُخ کیا جاتا تو مکہ کی طرف پشت ہوتی تھی۔ مدینہ طیبہ آمد کے بعد رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم الٰہی تھا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس ہی اہلِ اسلام کا قبلہ رہا، مگر رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمنا یہی تھی کہ کعبۃ اللہ کو ہی قبلہ بنایا جائے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں وحئ الٰہی کا انتظار فرما رہے تھے۔ اس واقعہ کو قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ.
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو، اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیں۔
البقرة، 2: 144
رہا آپ کا یہ سوال کہ خانہ کعبہ کے ہوتے ہوئے بیت المقدس کو قبلہ کیوں بنایا گیا؟ تو اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان فرما دیا ہے، ارشاد ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ.
اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بیشک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے۔
البقرة، 2: 143
درج بالا آیت سے معلوم ہوا کہ دورانِ نماز قبلہ تبدیل فرما کر اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی اطاعت کو پرکھا کہ کون میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پھر جاتا ہے اور کون اپنی جگہ پر کھڑا رہتا ہے۔ خانہ کعبہ کی موجودگی میں بیت المقدس کو قبلہ بنانے کی یہی علت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دی ہے۔
یروشلم میں بیت المقدس کی باقاعدہ تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی۔ انبیائے بنی اسرائیل کثیر تعداد میں اسی علاقہ میں مبعوث ہوئے، اسی وجہ سے سابقہ مذاہبِ سماویہ کا مرکز بھی یہی علاقہ رہا۔ بیت المقدس اور فلسطین کی دیگر مقدس مقامات کے ساتھ تمام مذاہب سماویہ کا قلبی لگاؤ ہے۔
خانہ کعبہ کی اولین تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے کی۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ. رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ.
اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج کے) قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت) کی نظر فرما، بیشک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔
البقرة، 2: 128، 129
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش کے مطابق بیت اللہ کو اہلِ اسلام کا قبلہ مقرر فرمایا۔
بیت اللہ کی طرف رُخ کر کے عبادت کرنے کا باقاعدہ حکم تو امتِ محمدیہ کے لیے ہی آیا ہے۔ سابقہ امتوں کے لیے بیت المقدس ہی قبلہ کا درجہ رکھتا تھا۔
خانہ کعبہ اور بیت المقدس کی تاریخ جاننے کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ نہایت مفید ہے:
البدایۃ و النہایۃ از حافظ ابن کثیر
تاریخ الامم و الملوک از ابنِ جریر طبری
الکامل فی التاریخ از ابنِ اثیر
فتوح البلدان از بلاذری
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی
تاریخ اشاعت: 2015-10-23
Bookmarks