عورتیں اور روٹیاں
ایک شخص کے پاس 50 روٹیاں ہیں جو اس نے سو عورتوں میں تقسیم کرنی ہیں۔ ہر عورت کی خواہش ہے کہ اسے ایک پوری روٹی ملے۔ آدھی روٹی پر کوئی راضی نہیں کہ 'عدل' نہیں ہو سکے گا !!! اس تحریک سے متاثر ہو کر وہ شخص پچاس عورتوں میں ایک ایک روٹی تقسیم کر دیتا ہے اور باقی پچاس عورتوں کو صبر اور توکل کی تلقین کرتا رہتا ہے اور دعائیں کرتا ہے کہ یا اللہ! ان کی بھوک غیب سے رفاع کر دے۔ کیا یہ عمل فضول نہیں؟؟؟
بھئ پچاس روٹیوں کو سو عورتوں میں آدھی آدھی تقسیم کر کے اپنی زمےداری پوری کرتا پھر جو بھوک باقی رہ جاتی اس پر اللہ سے دعا کرتا کہ یا اللہ! جو میرے بس میں تھا وہ میں نے کیا، اب تو اس آدھی روٹی میں برکت ڈال دے۔
بس یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے۔۔۔ جن خوش نصیب عورتوں کو 'پوری روٹی' مل جاتی ہے وہ اپنی روٹی تقسیم کرنے پر راضی نہیں ہوتیں اور جو مرد اس تقسیم کے ذمےدار ہیں وہ 'عدل اور انصاف' کی آڑ میں بہانے ڈھونڈتے ہیں۔
جب نکاح مشکل اور حد سے زیادہ مشروط ہو جائے تو پھر یہ نتیجہ ناگریر ہے۔ اور جب معاشرے کے باصلاحیت مرد کثرت ازواج کا فطری راستہ ترک کر دیں تو اس کے منفی اثرات مرد کو کم اور عورت کو زیادہ برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
یہ خبر نہیں، المیہ ہے۔۔۔
منقول
Bookmarks