بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں- سورہ الرعد
شیدا بھائی میں آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں اور آپ نے جن اقوام کی ترقی کی بات کی ہے میں اس سے بھی اتفاق کرتا ہوں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنی آزادی کے ساٹھ سال مکمل کر چکے ہیں اور ان ساٹھ سالوں میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن عوامی وہی بے روزگاری، مہنگائی، معاشی بدحالی اور سیاسی ابتری کا شکار رہی۔ وعدے وعید کے سنہرے دن کب پورے ہونگے کوئی نہیں جانتا۔ کوئی نظام کی تبدیلی کی بات کرتا ہے تو کوئی چہروں کی تبدیلی کی۔ ہمارے یہاں شروع دن سے ہی زمیندار، جاگیردار، وڈیرہ شاہی اور بیورو کریسی کا دورہ دورہ رہا ہے۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور ناخواندگی دور کرنے کیلئے نئے چہروں کی ضرورت ہے۔ آزمائے ہوئے کو آزمانہ جہالت کے زمرے میں آتا ہے۔ جب تک یہ چہرے تبدیل نہ ہوں گے نہ ملک کی حالت بدلے گی اور نہ عوام میں بہتری آئے گی۔
اوپر قرآن پاک کی ایک آیت نمونہ کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے قرآن پاک کو پس پشت ڈال دیا ہے اور غیر مسلم اقوام اس قرآن کا ترجمہ کرا کر اپنے نظام معیشت کو اس کے مطابق ڈھال رہی ہیں۔ جاپان، چین، جنوبی کوریا کی جو باتیں آپ نے کی ہیں وہ محنتی اقوام ہیں اور محنت پر یقین رکھتی ہیں۔ ہمارے سابقہ وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر ایک ایک پاکستانی روزانہ صرف پانچ منٹ بھی ملک کے مفاد کیلئے وقف کردے تو یہ ملک دنیا کا عظیم ملک بن سکتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں ایک سفرنامہ پڑھ رہا تھا شاید شوکت علی شاہ کا تھا یا مستنصر حسین تارڑ کا۔ لکھتے ہیں کہ جب میں یورپین ممالک گیا تو جرمنی میں ایک ریلوے اسٹیشن سے دوسرے شہر کیلئے روانہ ہونے لگا۔ اسٹیشن پر پہنچا تو کوئی ٹکٹ آفس نظر نہیں آیا صرف ٹرین ہی کھڑی پائی۔ میں کافی دیر تک پریشان رہا کہ ٹکٹ کیسے حاصل کیا جائے۔ جب ٹرین کے جانے کا وقت ہو گیا اور ہرن بجنا شروع ہوگئے تو میں دوڑا دوڑا ٹرین میں جا گسا یہ سوچ کر کہ شاید ٹکٹ ٹرین میں ہی دینا ہوگا۔ لیکن جب میرا اسٹیشن قریب آنے لگا تو نہ ہی کوئی ٹکٹ دینے والا نہ چیک کرنے والا نظر آیا۔ میران حیران و ششدر رہ گیا کہ یہ کیا ماجرہ ہے۔ ساتھ بیٹھی ایک بڑھیا سے جب اس بارے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا حکومت نے اسٹیشن پر تمام سسٹم کو کمپیوٹرائز کیا ہوا ہے۔ آپ وہاں لگی مشین میں اپنے مطلوبہ اسٹیشن کا بٹن پریس کرتے تو ٹکٹ اماﺅنٹ ظاہر ہو جاتے۔ آپ پیسے اس مشین میں ڈالتے تو روانہ ہو جاتے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے حیرانگی سے بڑھیا سے پوچھا کہ اس طرح بہت سے لوگ فری میں سفر کرتے ہوں گے کیونکہ جس طرح آج میں نے دیکھا کہ کوئی ٹکٹ دینے اور چیک کرنے والا بھی نہیں۔ بڑھیا نے کہا کہ بیٹا اگر ہم ایک دن بھی ملک کے ساتھ ایسا کرلیں تو اگلے دن حکومت ہماری سہولت کی یہ سروس بند کر دے گی۔ ہم نے ملک کو آگے لیکر جانا ہے پیچھے نہیں جانا۔ بڑھیا کے الفاظ سن کر میرا خیال فوراً پاکستان کی طرف چلا گیا کہ پاکستان دوسری اقوام سے کیوں بہت پیچھے ہے اور آج ترقی یافتہ تو دور کی بات ترقی پذیر ممالک میں بھی ایک سو گیارہویں نمبر پر ہے۔
راشد خان بھائی آپ نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس پر آپ داد کے مستحق ہیں۔ میں آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر پاکستان میں تعلیمی نظام درست ہو جائے تو سب نظام درست ہو جائیں گے۔ اس ملک میں انقلاب کی ضرورت ہے جو ان سیاستدانوں سے نہیںیا سیاسی پارٹیوں سے نہیں آئے گا۔ اس کے لئے آپ کو، ہمیں اور سب نوجوانوں کو آگے بڑھنا ہوگا ۔
Bookmarks