محترمہ نادیہ صاحبہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کالم شاید آپ کا خود کا لکھا ہوا نہیں ہے پر آپ کی رائے ہے یا آپ کی سوچ ہے کہ طالبان سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں ۔ مجھے یہ پڑھتے ہوئے بہت افسوس ہوا یقین جانیئے کہ جواب لکھنے کو دل نہیں ہو رہا پر اس نیت سے لکھ رہا ہوں کہ اللہ کرئے کہ میں آپ کی اور یہ تھریڈ پڑھنے والوں کی رائے بدل سکوں ۔
پہلے تو کچھ زمینی حقائق سے بات کو سمجھانے کی کوشش کرؤں گا۔ پھر کچھ دینی حوالے ۔
پہلی بات یہ کہ شاید آپ کی نظر سے کچھ دن پہلے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپوٹ نہیں گزری جس کے مطابق امریکہ اور روس کے درمیان لاجسٹک سپورٹ کا معاہدہ طے پاگیا ہے اس سے پہلے روس نے ہمیشہ اس پر ہی اصرار کیا کہ وہ امریکہ کو صرف اور صرف غیر فوجی سازوسامان کی نقل وحمل کی سہولت دے گا۔ اپنی سرزمین یا فضائی حدود فوجی مقاصد کے لیئے استعمال کی اجازت نہیں دے گا۔ مگر اب روس نے بعض کڑی شرائط اور بھاری معاوضے کے عوض فوجی سازوسامان کی نقل و حمل کی سہولت فراہم کر دی ہے۔ کریملن کے ترجمان پیری خودکوف کے مطابق حالیہ معاہدے میں فوجی اور غیر فوجی ضروریات شامل ہیںاور نقل وحمل کی اجازت تینوں حدود (بری ، بحری اور فضائی ) سے دی گئی ہے۔ روسی صدر میتری میڈوف کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ وہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعاون بڑھانے کو تیار ہیں اب اس تعاون کی عملی شکل سامنے آگئی اور روس بھی اس جنگ میں امریکہ اور نیٹو کا معاون بن گیا ۔
روس کے اس اقدام نے ثابت کردیا کہ وہ اپنی بربادی کا ذمہ دار امریکہ کو نہیں سمجھتا بلکہ افغان مجاھدین کو سمجھتا ہے اس لیئے اس نے انتقام لینے کے لیئے امریکہ کا معاون بننا قبول کیا ہےکہ اس طرح وہ افغان مجاہدین سے اپنی ذلت ورسوائی کا بدلہ لے سکے ۔ غور کریں عقل سے کام لیں اگر روس اپنی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھتا تو طالبان سے تعاون کرتا کہ امریکہ تباہ و برباد ہوتا پر اس نے امریکہ سے معاہدہ کیا کہ وہ اپنی بربادی کا ذمہ داری کا مجاہدین کو سمجھتا ہے ۔
1982میں جزائر اوکلینڈ میں ہونے والی برطانیہ اور ارجنٹائن کی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے برطانیہ کے اعلی افسران کے بعد ہلاک ہونے والا کوئی بڑا آفیسر برطانیہ کی ویلز اسپیشل فورسز گروپ ون کاقائد بریگیڈئیرروبرٹ تھارنیلو ہے جو کہ گزشتہ ہفتے افغانستان کے صوبے ہلمند میں مارا گیا ہے جس پر برطانیہ کی عوام چیخ پڑی ہے ایک معروف سفارتکار میتھیو پیرس کا بیان آیا کہ افغانستان پر فوجی حملہ بڑی غلطی ہےاور فتح ناممکن ہے۔
محترمہ عوام یا فوج کی قدر ملک خداداد میں نہیں ہے باشعور معاشروں میں کتنی ہے اس کا ثبوت آئے دن ان معاشروں میں ہونے والے مظاہرے ہیں کہ ہمارے جوان کہاں ہیں۔
اور کیا بچگانہ بات کی ہے کہ طالبان کی جگہ گورکھا رجمنٹ وغیرہ وغیرہ لڑرہی ہیں ۔۔ اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان میں ایسی ڈیڈ باڈیز ملی ہیں جن کی ختنہ نہیں ہوئی تھی پر شاید آپ کی نظر سے میرا وہ تھریڈ بھی نہیں گزرا جس میں سوات سے ہجرت کرنے والے سکھوں کا انٹرویو ہے کہ طالبان نے ان پر کیا ظلم کیا ۔ پاکستان کے علماء تک کہہ رہے ہیں کہ سوات وغیرہ کے حالات میں انڈیا کا ہاتھ ہے بعض اوقات معاہدے ہوئے اور کسی تیسرے ہاتھ نے عین وقت پر کوئی ایسی حرکت کی کہ وہ معاہدے ٹوٹ گئے اور نہ طالبان کو پتہ کہ کس نے کیا نہ حکومت کو خبر۔ خیر بات افغانستان کی ہو رہی تھی تو کیا آپ کو اتنا بھی نہیں پتا کہ پاکستان کے علماء کرام ، مفتیان عزام جیسے حضرت اقدس مفتی عبدالرشید صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، مفتی نظام الدین شامزئی شہید، مفتی جمیل صاحب شہید، مفتی تقی عثمانی ،مفتی رفیع عثمانی ،مولاناسرفراز خان صفدررحمۃ اللہ علیہ ، مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ ، مفتی عبد الرشید غازی شہید رحمۃ اللہ علیہ، مولانا امین صاحب،،اور بے شمار علماء اور مفتیان کرام نے حضرت ملا محمد عمرمجاہد حفظ اللہ علیہ من کل شرکے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کو اپنا شرعی امیر مانا، کراچی میں شہید ہونے والے علماء کا سب سے بڑا جرم ہی ان مجاہدین کی سرپرستی تھا کیا اتنے بڑے بڑے علماء نعوذ باللہ نہیں جانتے تھے کہ ملا محمد عمرمجاہد سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں ۔ کچھ تو خیال کرو مسلمانوں کل تک اسامہ کے پاس کس چیز کی کمی تھی آپ کو پتا ہےکہ جس وقت سعودی حکومت کے پاس ایک طیارہ نہیں تھا تب بھی اسامہ کے والد محترم فجر کی نماز بیت اللہ میں پڑھتے تو ظہر کے لیئے اپنے جہاز پر بیت المقدس میں چلے جاتے ۔آج ان کا دولت مند بیٹا کس حال میں ہے اللہ ہی بہتر جانتاہے کیسا ظلم ہے کہ جس کو اللہ یہ سعادت دے کہ وہ اپنے گھر کی تزین وآرائش کا کام جس بندے سے لے وہ اس گھرمیں نہیں جا سکتا۔
بد قسمتی سے میں کوئی عالم یا مفتی یا کوئی مجاہد تو نہیںپر اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اہل حق کا ساتھ دیا ۔ اور یہ ساتھ ایک واقعے سے بہت مضبوط ہوا یہ سن دوہزار کی بات ہے جب میں سرحد میں اپنے گاؤں میں تھا ایک دن ایک دوسرے گاؤں کے ایک لڑکے کی ڈیڈ باڈی لائی گئی جو مجاہد تھا اور شہید ہوا تھا اس لڑکے کے والد جہاد کے سخت خلاف تھے ان کے دو بیٹے تھے اب ایک ان کے سامنے شہید پڑا تھا دن میں تدفین کر کے وہ صاحب رات کے وقت پریشان بیٹھے تھے کہ اچانک ان صاحب کے دل میں کیا آیا کہ اس نے کہا کہ اے بیٹے شہید تو زندہ ہوتا ہے اگر تو واقعی شہید ہے اور یہ سچا جہاد ہے تو تو کوئی ثبوت دے ۔اللہ گواہ ہے کہ اس باپ نے کہا کہ اس کا شہید بیٹا آیا اور اس سے ملا اور اس نے اس کے ہاتھ کی سختی تک محسوس کی اس سے کافی دیر باتیں کیں اور اس راہِ حق کے بارے میں بتایا صبح ہوئی تو ان صاحب نے اپنے چھوٹے بیٹے کو بھی جہاد کے بیجھ دیا ۔آج بھی اس واقعے کے کئی شاہد زندہ ہیں ۔۔ اب کیا کہیں کہ امریکہ کے پاس کون سی ٹیکنالوجی ہے وہ سی آئی اے کا ایجنٹ کیسے زندہ ہوا ۔۔یہ تو صرف ایک وہ کرامت بتائی ہے جو خود میرے سامنے کی ہے ورنہ آپ مولانا اختر صاحب کی کتاب مجاہدین کی کرامات پڑھیں تو شاید بہت کچھ جان سکیں۔
۔(لکھنا تو اور بھی بہت کچھ چاہ رہا تھا پررات کے پونے دو ہو رہے ہیں اور صبح نو بجے آفس پہنچنا ہوتا ہے کسی اور وقت کوشش کرؤں گا کہ اس حوالے سے مزید اور کہہ سکوں ویسے اگر غیر جانبدار ہو کر سوچیں گی یا جو پڑھے گا تو شاید اللہ اس کو سچ حق سمجھنے کی توفیق دے دے)۔
اے اللہ ہم سب کو معاف کر دے معاف کر دے تو ہمارے دلوں کے تالے کھول دے ہمیں راہ حق دکھا دے آمین
Bookmarks