کیسی کیسی دردناک تصویریں ہیں…کلیجہ منہ کو آتا ہے…
’’غزہ‘‘
مأسدۃ الاسلام۔ اسلام کے شیروں کا مسکن…
جہاں لوگ ایک جیل میں مقیم ہیں…نہ کھانے کی فراوانی ہے اور نہ پینے کو صاف پانی دستیاب…
نہ دوائیں ہیں اور نہ وہ سامان تعیش،جس کے بغیر رہنا آج کے انسان کا شاید سب سے بڑا مسئلہ ہے…
نہ امن ہے اور نہ روزی…
مگر جسے دیکھو سینہ تانے جی رہا ہے…سر اٹھا کر جی رہا ہے اور انگلیوں سے فتح کا نشان بنا کر جی رہا ہے…
نہ کوئی بھاگنے کے چکر میں ہے اور نہ بکنے پر آمادہ…
’’حماس‘‘ ڈنڈا بردار فورس نہیں جو جبر، سزاؤں، گلے کاٹنے کی ویڈیوز،سر عام کوڑے بازی اور مارا ماری کے زور پر اس علاقے پر قابض ہو…
یہاں سب لوگ ’’حماس‘‘ ہیں۔اپنی خوشی سے، اپنے ایمان کی بنیاد پر اور نظریاتی طور پر…
یہاں رہنے والوں کی شکل کیسی بھی ہو…لباس جس ڈھنگ کا بھی ہو،تعلیم جیسی بھی ہو…
مگر یہ سب ’’حماس‘‘ ہیں…
یہ ارض جہاد ہے،ارض شہداء ہے اور ارض اہل عزیمت ہے…
یہاں سرفروش رہتے ہیں،مزاحمت کار آباد ہیں، ہر دم تیار ہر آن مستعد…
غزہ کا رمضان ہر سال عجیب ہوتا ہے…
شہادتوں کی بہاریں لیے سرخ رمضان…
امت کا امتحان اور غزہ کے کئی لوگوں کے لئے امتحان سے خلاصی اور نجات…
جی ہاں! امت کا امتحان…
’’غزہ‘‘ میں بہنے والا لہو ہمارے لئے ایک سوال ہے اور ہم سب کو جواب دینا ہے…
غزہ میں کٹی پھٹی لاشیں،روتی مائیں،تڑپتی جوانیاں،بھوک سے بلبلاتے بچے،دواؤں کو ترستے زخمی،فاقہ کش روزہ دار…کیا ہماری کوئی مسئولیت نہیں؟…
غزہ تو ایک بار پھر سرفراز ہو جائے گا مگر ہم؟…
غزہ تو پھر جیت جائے گا…امتحان میں کامیاب رہے گا،اس کا فخر اور بڑھ جائے گا…
اس کا نام مزید اونچا ہو جائے گا…مگر امت؟…
مگر عرب و عجم میں بکھرے اربوں مسلمان؟…
اس غزہ کو احمد یاسین نے حماس بنایا ہے…
عبد العزیز رنتیسی نے اپنی لہو سے اس کی بنیاد مستحکم کی ہے…
اور اب قرآن مجید کا بہترین قاری خالد مشعل ایمانی مشعل ہاتھ میں لئے غزہ کی کمان سنبھالے ہوئے ہے…غزہ کو کیسے جھکایا جا سکتا ہے؟اس کے قائد کے صرف ہاتھ ہی نہیں سینے میں بھی قرآن ہے اور قرآن کہتا ہے:
’’کمزور مت ہو،غم مت کرو،تم ہی غالب ہو اگر ایمان پر رہو‘‘ ( آل عمران)
یہ قرآن غزہ والوں کو یہود کے بارے میں بتا رہا ہے:
’’یہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے سوائے زبانی تکلیف پہنچانے کے اور اگر تم سے لڑیں گے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے‘‘ ( آل عمران)
٭…٭…٭
’’مزاحمت‘‘ اور کفر سے ٹکراؤ مسلمان کو کیسا مسلمان بنا دیتے ہیں؟…
آئیے غزہ سے سیکھتے ہیں…
تصور کیجیے۔بمباری ہو رہی ہے۔کالج میں پڑھنے والی ایک طالبہ کو یقینی طور پر نظر آ رہا ہو کہ اس کا بچ نکلنا محال ہے۔موت یقینی ہے۔ایسے میں دنیا کے نام صرف ایک پیغام بھیجنے کا وقت ہو تو وہ کیا لکھے گی؟…
ہو سکتا ہے کوئی مظلومانہ جملہ جو لوگوں کو دیر تک رلاتا رہے…
ممکن ہے کوئی شکوہ…کوئی شکایت کہ ہماری مدد کو کوئی نہ آیا…
ہو سکتا ہے کوئی اپیل…عالمی ضمیر کے نام،اقوام متحدہ کے نام،امریکہ کے نام یا مسلمان حکمرانوں کے نام…
مگر غزہ والے کتنے عظیم،کتنے اونچے اور کتنے عزیمت والے مسلمان ہیں،کیسے سچے مسلمان ہیں،کیسے بلند پایہ ایمان والے ہیں…
غزہ میں کالج پر بم برسائے گئے…ایک سترہ سالہ طالبہ’’ وھبۃ‘‘ نے اس لمحے اپنا آخری پیغام سوشل میڈیا پر شئیر کیا:
’’مرحبا بالشہادۃ‘‘ ( شہادت کو خوش آمدید)
اور پھر اس نے شہادت پا لی…
اہل ایمان!
اسے ایمان کہتے ہیں…اسے محبت کہتے ہیں… یہ ہوتا ہے عشق الہی…اس کا نام ہے شوق لقائے محبوب…
ہاں مگر یہ سوغات غزہ، کشمیر، افغانستان، شام، عراق جیسی جہادی خانقاہوں میں ہی ملتی ہے…
٭…٭…٭
غزہ پر جو شخص حکومت کرتا ہے ایمان و استقامت کا پہاڑ ہے…
اس نے بھی ہم سب کے نام ایک پیغام بھیجا ہے…آئیے پڑھ کر تھوڑا شرمندہ ہوتے ہیں…
تھوڑا روتے ہیں اور کچھ دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے لئے کچھ کرنے کے قابل بنا دے، راستے کھول دے اور رکاوٹیں دور کر دے…
’’مسلمانو!
تمہیں اطلاع کرنی تھی کہ ہم پر بمباری ہو رہی ہے،ہمارے بچے قتل ہو رہے ہیں…
تمہارے آرام میں مخل ہونے پر معذرت…
تمہارا بھائی ’’اسماعیل ہانیہ‘‘
٭…٭…٭
Bookmarks