اب اتنی راہ و رسم ہے زندگی سے
کہ جیسے ملے اجنبی اجنبی سے
منہ اک اک کا تکتا ہوں میں بے کسی سے
سہارا نہ ٹوٹے کسی کا کسی سے
جدا ہو کے مجھ سے کوئی جا رہا ہے
گلے مل رہی ہے اجل زندگی سے
سکوں تیرے قدموں سے لیپٹتا رہے گا
گزر جا مقامات ِ رنج و خوشی سے
وہ تیری جدائی کے دن توبہ توبہ
کہ راتیں بھی شرما گئیں تیرگی سے
خمار اب بھی جینے کو میں جی رہا ہوں
مگر کچھ تعلق نہیں زندگی سے
Bookmarks