اب تو خواہش ہے کہ یہ زخم بھی کھا کر دیکھیں
لہمحہ بھر ہی سہی اُس کو بھلا کر دیکھیں
شہر میں جشن ِ شب ِ قدر کی ساعت آئی
آج ہم بھی ترے ملنے کید عا کر دیکھیں
آندھیوں سے جو الجھنے کی کسک رکھتے ہیں
اک دیا تیز ہوا میں جلا کر دیکھیں
کچھ تو اوارہ ہوائوں کی تھکن ختم کریں
اپنے قدموں کے نشاں آپ مٹا کر دیکھیں
زندگی اب تجھے سوچیں بھی تو دم گھٹتا ہے
ہم نے چاہا تھا، کبھی تجھ سے وفا کر دیکھیں
جن کے ذروں میں خزاں ہانپ کے س وجاتی ہے
ایسی قبروں پہ کوئی پھول سجا کر دیکھیں
دیکھنا ہو تو محبت کے عزا داروں کو
ناشناسائی کی دیوار گرا کر دیکھیں
یوں دنیا ہمیں مقروض کیے رکھتی ہے
دست ِ قاتل ترا احساں بھی اٹھا کر دیکھیں
رونے والوں کے تو ہمدرد بہت ہیں محسن
ہنستے ہنستے کبھی دنیا کو رلا کر دیکھیں
Bookmarks