سب ہیں اسیر راہ گزر کیا کروں گا میں
ان قافلوں کے ساتھ سفر کیا کروں گا میں
پھرتا ہوں مثل ِ موج کناروں کے درمیاں
آسودگی ادھر نہ اُدھر، کیا کروں گا میں
جو عمر تھی وہ گوشہ نشینی میں کٹ گئی
اب کاروبار جنس ِ ہنر کیا کروں گا میں
ہے مشت ِ خاک دولتِ دنیا مرے لیے
مل بھی گئے جو لعل و گہر کیا کروں گا میں
جو دن گزر گئے ہیں گزارے ہیں کا طرح
جو عمر بچ رہی ہے بسر کیا کروں گا میں
ملتا نہیں مزاج مرا اہل بزم سے
آتو گیا ہوں سیف مگر کیا کروں گا
Bookmarks