انہی موسموں میں
ہماری ضرورت کے پل نے
محبت کے مہکے ہوئے شہر کے راستوں سے
سفر بھر دیا تھا
دُکھوں سے بھری زندگی شانت ہو کر
رفاقت کی ساری رسومات کے سُکھ سے
لپٹی ہوئی مُسکراتی ہوئی جی رہی تھی
اُمیدوں میں لپٹے ہوئے قہقہے
روشنی کے سفر کا اشارہ بنے تھے
مگر یہ خوشی موت سے حاملہ اک اداسی کی ماں تھی
انہی موسموں میں
بدلتے ہوئے راستوں سے خیالوں کی مرغابیاں ڈر گئیں
تو سبھی خواہشیں مر گئیں
نارسائی کے کیچڑ میں دھنستی ہوئی زندگی کی
زباں تھک گئی
مرے نیلے کمرے کی دیوار کے دل پہ ٹانکا ہوا ہے
میں ناراض موسم میں
انجام کے Bed پہ بیٹھا ہو ا مختصر ہو رہا ہوں
میں اب سو رہا ہوں
میں اب سورہاہوں
Bookmarks