ترے کمرے میں بکھرے کانچ کے برتن بتاتے ہیں
کہ کوئی خواب ٹوٹا ہے
کتابوں پر پڑے گُلدان کے ٹکڑوں میں
پھولوں کی کہانی ہے
جو تم نے رات کے پچھلے پہر
اک خوبرو مہمان کی خاطر سجائے تھے
تمہارے بیگ کی زپ بھی کھلی ہے
اور تمہار ا پرس بھی
کھونٹی پہ اُلٹا ایسے لٹکا ہے
کہ جیسے کوئی چمگادڑ
سحر کی روشنی سے خوف کھا کرآسماں کو گھورتی ہے
دھوئیں کے بادلوں کی نذر ہوتے ریشمی کپڑے
مری آنکھوں نے دیکھے ہیں
ترے نیکلس کے کچھ موتی
ترے باہر کے دروازے کی چوکھٹ پر
مرے پاؤں کے نیچے آ رہے تھے
یہ وہی پاؤں ہیں جو تیری محبت میں
فقط محو سفر ہیں
ترے انجام کا مجھ کو پتہ تھا
مجھے آغاز کا دُکھ ہے
Bookmarks