کہاں تھا اتنا عذاب آشنا مرا چہرہ
جلے چراغ تو بجھنے لگا مرا چہرہ
وہ تیرے ہجر کے دن وہ سفیر صدیوں کے
تو ان دنوں میں کبھی دیکھتا مرا چہرہ
جدائیوں کے سفر میں رہے ہیں ساتھ سدا
تری تلاش، زمانے، ہوا، مرا چہرہ
مرے سوا کوئی اتنا اداس بھی تو نہ تھا
خزاں کے چاند کو اچھا لگا مرا چہرہ
کتاب کھول رہا تھا وہ اپنے ماضی کی
ورق ورق پہ بکھرتا گیا مرا چہرہ
سحر کے نور سے دھلتی ہوئی تری آنکھیں
سفر کی گرد میں لیپٹا ہوا مرا چہرہ
ہوا کا آخری بوسہ تھا یا قیامت تھی
بدن کی شاخ سے پھر گر پڑا مرا چہرہ
جسے بجھا کے ہوا سوگوار پھرتی ہے
وہ شمع ِ شام ِ سفر تھی کہ تھا مرا چہرہ
وہ لوگ کیوں مجھے پہچانتے نہیں محسن
میں سوچتا ہوں کہاں رہ گیا مرا چہرہ
Bookmarks