کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
اور کسی نے نہ سہی تو نے تو مجھے پکڑا ہوتا
تو حنا لگے ہاتھوں سے مجھے پٹھے کھلاتی
تھوڑے تھوڑے نہیں سارے اکٹھے کھلاتی
تو مجھے میں میں کر کے بلاتی
اور شام کو گلی میں ساتھ گھماتی
میرے پاس گاڑی نہ سہی چھکڑا ہوتا
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
پھر عید پر ذبح ہو جاتا میں
تیری خاطر کٹ مر جاتا میں
رات کو سردی میں باہر اکڑا ہوتا
تیری محبت میں کچھ اس طرح جکڑا ہوتا
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
****************
حقیقت سمجھو یا افسانہ
اپنا سمجھو یا بیگانہ
ہمارا تمہارا رشتہ ہے پرانا
اس لیے فرض تھا بتانا
کہ بکرا عید آرہی ہے
اب شروع کر دو گھاس کھانا
*************
آئی ہے بقر عید بڑی دھوم دھام سے
منسوب ہو گئی ہے جو بکرے کے نام سے
بچے بھی خوش ہیں اور ہیں بیگم بھی مطمئن
بس میرے ہوش اڑ گئے ہیں بکرے کے نام سے
Bookmarks