کچھ یوں بھی سنو شوقِ ندامت نہیں مجھکو
قاتل سے بھی اپنے تو عداوت نہیں مجھکو
تم بھی تو ہو خود اپنے ہی حالات میں محصور
تم سے بھی مری جان شکایت نہیں مجھکو
یہ سچ ہے کہ کہنے کو ہوں ناکام بظاہر
جھوٹے سے بھی دل رکھنے کی عادت نہیں مجھکو
پہلے تو مجھے قُرب کی لذت نہیں بخشی
اب اُس سے بچھڑنے کی اجازت نہیں مجھکو
بس ایک منافق سے مجھے ہوتی ہے نفرت
ورنہ تو کسی شخص سے نفرت نہیں مجھکو
اس لفظِ محبت نے کیا مجھ کو وہ رسوا
تم نے بھی کہا تم سے محبت نہیں مجھکو
تم نے بھی مجھے خواہشِ گمنام ہی سمجھا
تمہارے رویے پہ بھی حیرت نہیں مجھکو
تیار ہوں میں اگلے سفر کے لیئے صفدر
سچ پوچھو کسی چیز کی حسرت نہیں مجھکو
Bookmarks