اہل دل اور بھی ہیں 'اہل وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں دنیا سے خفا اور بھی ہیں
ہو ہی جائے گی ' کسی روز رفو کی تدبیر
چاک دل اور بھی ہیں ' چاک قبا اور بھی ہیں
کیا ہوا گر مرے یاروں کی زبانیں چپ ہیں
مرے شاہد مرے یاروں کے سوا اور بھی ہیں
سر سلامت رہے ' تو کیا سنگ ملامت کی کمی
جان باقی ہے تو پیکان قضا اور بھی ہیں
منصف شہر کی توقیر نہ کم ہو جائے
لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں
کیوں نہ سر اپنا اب اس در سے اٹھالیں یارو
سجدہ کرنا ہی ہے تو ' نقش پا اور بھی ہیں
کلام : ساحر لدھیانوی
~*~*~*~*~*~*~*~*~*~*~*~*~
Bookmarks