دشتِ تنہائی میں، اے جان جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سَراب
دشتِ تنہائی میں، دُوری کے خس و خاک تلے
کِھل رہے ہیں، تیرے پہلُو کے سُمن اور گلاب
اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سُلگتی ہوئی مدھم مدھم
دو افق پار، چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تیری دلدار نظر کی شبنم
اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے
دل کے رُخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن، آبھی گئی وصل کی رات
Bookmarks