پھرتے ہوئے کسی کی نظر دیکھتے رہے
دل خون ہو رہا تھا مگر دیکھتے رہے
کچھ دن یہ بھی رنگ رہا انتظار میں
آنکھ اٹھ گئی جدھر، ادھر دیکھتے رہے
جب آشیاں کی یاد اسیری میں* آ گئی
اڑتے ہوئے ہوا میں شرر دیکھتے رہے
سنتے رہو کہ دیکھ لیا جلوئہ بے حجاب
اپنا ہی سب فریبِ نظر دیکھتے رہے
اس واسطے کہ اور گھٹے مول جنس کا
مطلوب ان کو دل تھا جگر دیکھتے رہے
*~*~*~*~*~*~*
Bookmarks