بڑے غضب کاہے یارو' بڑے عذاب کا زخم!
اگر شباب ہی ٹھرا میرے شباب کا زخم
ذرا سی بات تھی' کچھ آسماں* نہ پھٹ پڑتا
مگر ہرا ہے ابھی تک تیرے جواب کا زخم
زمیں کی کوکھ ہی زخمی نہیں* اندھیروں*� �ے
ہے آسماں کے بھی سینے پہ آفتاب کا زخم
میں* سنگسار جو ہوتا تو پھر بھی خوش رہتا
کھٹک رہا ہے مگر دل میں* اک گلاب کا زخم
اسی کی چاہ گری میں* گذر گئی اسرار
تمام عمر کو کافی تھا اک شباب کا زخم۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
Bookmarks