شکر کر تیرا محبّت میں گیا کچھ بھی نہیں
ورنہ یاں ایسے بھی ہیں جن کا بچا کچھ بھی نہیں
سوچتا ہوں جانے کیا اس خواب کی تعبیر ہے
آگ تھی چاروں طرف جلا کچھ بھی نہیں
کر دیا اس کو ودیعت خامشی نے یہ ہنر
بات کہ جاتا ہے ساری بولتا کچھ بھی نہیں
وہ تو اپنے دیکھنے سے اہمیت اس کی بنی
ورنہ دیکھا جائے تو یہ آئینہ کچھ بھی نہیں
بات نکلی تو لبوں پر کتنے شکوے آگئے
میں تو سمجھتا تھا مجھے اس سے گلہ کچھ بھی نہیں
ایک ہی خوبی ظالم میں وہی خامی بھی ہے
دل کی فورا ً مانتا ہے سوچتا کچھ بھی نہیں
میں نے دل پر لے لئے تیمور کمبختی میری
ورنہ اس کا مسکرانا واقعہ کچھ بھی نہیں
~~~~~<<<<<>>>>>~~~~~
Bookmarks