مسافر کے راستے بدلتے رہے
مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے
کوئی پھول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا
میرے پاؤں شعلوں پہ چلتے رہے
میرے راستے میں اجالا رہا
دیے اُس کی آنکھوں میں جلتے رہے
وہ کیا تھا جسے ہم نے ٹھکرا دیا
مگر عمر بھر ہاتھ ملتے رہے
محبت عداوت وفا بےرُخی
کرایے کے گھر تھے بدلتے رہے
سنا ہے اُنہیں بھی ہوا لگ گئی
ہواؤں کے جو رُخ بدلتے رہے
لپٹ کے چراغوں سے وہ سو گئے
جو پھولوں پہ کروٹ بدلتے رہے
Bookmarks