یہ جو پُر شکستہ ہے فاختہ
یہ جو زخم زخم گُلاب ہے
یہ ہے داستاں میرے عہد کی
جہاں ظلمتوں کا نصاب ہے
جہاں ترجمانی ہو جھوٹ کی
جہاں حکمرانی ہو لوٹ کی
جہاں بات کرنا مُحال ہو
وہاں آگاہی بھی عذاب ہے
ہونٹ تو کھول تُو
کچھ اپنے حق میں بھی بول تُو
یہ عجیب ہے تیری خامشی
نا سوال ہے نہ جواب ہے
وہی بام و در ہیں جلے ہوئے
وہی چاند چہرے ڈھلے ہوئے
وہی صبح کُوئے ملال ہے
وہی شام۔سحر۔خراب ہے
Bookmarks