عذاب آنکھ میں اترے تو راستہ نہ ملا
گلاب خاک میں بکھرے تو راستہ نہ ملا
جنوں کا پہلے سے انکار کر لیا ہوتا
اب اس مقام پر مکرے تو راستہ نہ ملا
یہ تیرگی میں چمکتے رہے ادھر سے ادھر
ستارے دھوپ سے نکھرے تو راستہ نہ ملا
کہاں تو موجوں پہ رکھ کر قدم گزرتے تھے
بھنور کے زاویے بپھرے تو راستہ نہ ملا
یہ کائنات تو پیچھے ہی رہ گئی تھی کہیں
ہجوم ذات سے گزرے تو راستہ نہ ملا
لگا تھا ڈوب کے ،منزل کو چھو لیا ہے بتول
مگر جو ڈوب کے ابھرے تو راستہ نہ ملا
<<~*~*~*~>>
Bookmarks