Results 1 to 12 of 56

Thread: Top Story: May Daldal May Girnay Se Kaisay Bachi<Faisalabad Ki 1 Larki Ki Kahani>

Threaded View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Abu_Muaviyah's Avatar
    Abu_Muaviyah is offline Senior Member+
    Last Online
    8th August 2011 @ 12:09 AM
    Join Date
    26 Jan 2010
    Location
    **PAKISTAN**
    Gender
    Male
    Posts
    1,957
    Threads
    214
    Credits
    997
    Thanked
    1103

    Arrow Top Story: May Daldal May Girnay Se Kaisay Bachi<Faisalabad Ki 1 Larki Ki Kahani>

    ہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ایک گمنام خاتون کی کہانی ہے جو وی سی آر پر فلمیں دیکھتے دیکھتے فلموں میں کام کرنے کے شوق میں رائل پارک پہنچ گئی تھی۔ پھر یہ خاتون’’فلمی دنیا ‘‘ میں ایڈجیسٹ ہونے سے کس طرح بچیں اور کیسے محفوظ طور پر گھر پہنچیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے ان کی اپنی بیان کردہ یہ کہانی ذیل میں مطالعہ کیجئے۔

    اس دن ہمارے گھر میں کوئی خوشی کی انتہا نہ رہی جب میرا بڑا بھائی روزگار کے لیے ملک سے باہر گیا اور پھر چند ماہ بعد ہی ہمارے گھر میں ہماری ضروریات سےزیادہ پیسے آنے شروع ہوگئے ۔ پہلے ہم تین وقت کے کھانے کو ترستے تھے مگر اب انواع و ا قسام کے کھانے ہر وقت گھر میں پکتے تھے۔ تمام رشتہ دار ہمارے گھر کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔

    میرے والدین کے علاوہ ہمارے گھر میں ہم تین بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ میں بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ میرے والد ایک ریٹائرڈ سکول ماسٹر تھے۔ ان کے کندھوں پر ہم سب کا بوجھ تھا۔ جیسے تیسے کر کے انہوں نے ہمارے بڑے بھائی کو باہر بجھوا دیا۔اس دن ہمارے گھر میں سب پھولے نہیں سما رہے تھے جب دو سال بعد بھائی چھٹی پر گھر واپس آئے تو اپنے ساتھ بڑا ٹیپ ریکارڈ ، وی سی آر ، رنگین ٹیلی ویژن ، فریج اور کئی دوسری چیزیں لے کر آئے۔ اب کیا تھا! ہم تھے اور وی سی آر پر انڈین فلموں کی بھرمار،تبصرے تھے ، تو انڈین اداکاروں اور اداکاراؤں کے۔ ہر جگہ اور ہر خاندانی فنگشن میں یہی اداکاراؤں کے تذکرے تھے۔ آخر میرے دل میں بھی ایک کامیاب ترین اداکارہ بننے کا خیال سمایا۔ یہ خیال تقویت اختیار کر کے ارادہ بن گیا اور پھر میں نے نہایت سوچ بچار کے بعد ایک کامیاب اداکارہ بننے کے لیے ہر رسک لینے کا فیصلہ کر لیا۔

    جب میں نے اس کا ذکر اپنی چند قریبی سہیلیوں سے کیا تو انہوں نے مجھے بہت سمجھایا مگر مجھ پر ایک ہی بھوت سوار تھا اور پھر ایک رات میں نے گھر سے زیورات اور نقدی( جو قریباً دو لاکھ روپے کی قریب بنتی تھی) اٹھائی اور لاہور کے سفر پر روانہ ہو گئی۔ مجھے یہ یاد تھا کہ لاہور کے لکشمی چوک میں فلم کے بڑے بڑے دفتر قائم ہیں اور پھر میں نے اخبارات میں بھی ان کے بارے میں پڑھا ہوا تھا۔ لاہور پہنچ کر میں لکشمی چوک میں چلی گئی اور وہاں پر رائل پارک کی گلیوں میں گھوم پھر کر فلمی دفاتر کا جائزہ لیناشروع کر دیا ۔ مجھے اس طرح گلیوں میں پھرتے دیکھ کر چند اوباش غنڈے میرے پیچھے لگ گئے۔ میں ان کے آگے تیز تیز چلتی ہوئی ایک بلڈنگ میں داخل ہو کر بلا سوچے سمجھے سیڈھیاں چڑھنے لگی۔ آخری منزل پر سیڑھیوں کے ساتھ ہی مجھے ایک فلمی دفتر پر بڑا سا نام ’’بارود کا تحفہ‘‘ لکھا ہوا ملا اور میں گھبرائی گھبرائی اس دفتر میں داخل ہوگئی۔
    وہاں میں نے چپڑاسی سے پوچھا کہ مجھے اس فلم کے فلمساز جس کا نام میں پڑھ چکی تھی رانا طارق مسعود صاحب سے ملنا ہے ۔اس نے مجھے بٹھایا اور دفتر کے ساتھ والے کمرے میں اس نے رانا صاحب کو بتایا کہ کوئی خاتون آپ سے ملنے آئی ہیں۔ رانا صاحب نے اسے کہا کہ اندر بھیج دیں۔ میں سہمی سہمی سی اندر چلی گئی۔ سامنے ایک نوجوان جس کے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی، بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ آیئے تشریف رکھیے۔ میں خوفزدہ سی بیٹھ گئی۔ پھر میں نے اسے کہا کہ مجھے فلمساز طارق مسعود سے ملنا ہے اس نے کہا کہ فرمایئے! میں ہی رانا طارق مسعود ہوں۔ میں بہت حیران ہوئی۔ میرے ذہن میں تو فلم پروڈیوسر کا نقشہ ہی کچھ اور تھا کہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس، متکبر چالیس پینتالیس سالہ لمبا تڑنگا سا کوئی شخص ہوگا جو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میرے طرف دیکھے گا مگر یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ ابھی تک سامنے بیٹھے شخص نے میری طرف ایک دفعہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔وہ غالباً اسکرپٹ پڑھنے میں مشغول تھا۔ میں الجھے الجھے اور ملے جلے سے خیالات کے ساتھ وہاں بیٹھی دیوار پر لگے ہوئے بڑے بورڈ پر لگی فلم’’ بارود کا تحفہ‘‘ کی تصاویر دیکھ رہی تھی۔

    اب میں سوچ رہی تھی کہ اس شخص کو کس طرح قائم کروں گی؟ اتنے میں انہوں نے نگاہیں نیچے رکھے ہی مجھے سے پوچھا کہ محترمہ!فرمایئے آپ کس کام سے یہاں تشریف لائی ہیں؟ پہلے تو میں جھکی مگر فوراً ہی میں نے اپنا اصل مدعا انہیں بیان کرنا شروع کر دیا کہ میں فلموں میں کام کر کے ایک کامیاب ہیروئن بننا چاہتی ہوں۔ میری بات سن کر خاموش ہوگئے۔ میں ان کے جواب کا انتظار کر رہی تھی کہ اتنے میں دفتر کا چپڑاسی میرے لیے کولڈ ڈرنک لے آیا اور میرے سامنے رکھ دی ۔ رانا صاحب نے اسے کہا کہ جاؤ اور پر تکلف چائے لے کر آؤ ۔ میں یہ بات سن کر دل ہی دل میں بہت خوش ہوئی کہ دال گلتی نظر آتی ہے۔

    تھوڑی دیر بعد رانا صاحب پھر مخاطب ہوئے اور پوچھنے لگے کہ آپ کو ہیروئن بننے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ میں نے ان کو بتایا کہ میرے بھائی جان کچھ عرصہ قبل گھر میں بیرون ملک سے وی سی آر لے کر آئے ہیں میں نے اس پر بے شمار فلمیں دیکھیں ہیں۔ مجھے سری دیوی اور بابرہ شریف بہت پسند ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میں بھی ان کی طرح ہیروئن بن کر دنیا میں اپنا نام پیدا کروں۔

    کبھی آپ نے سوچا ہے کہ فلم کی سکرین پر جب آپ اچھل کود رہی ہوں گی تو آپ کے والدین اور بہن بھائیوں پر کیا بیتے گی؟ رانا صاحب نے چبھتا ہوا سوال کر ڈالا۔

    مگر میں کہاں شکست ماننے والی تھی۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ میں تمام کشتیاں جلا کر آئی ہوں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی شوق کی تکمیل کے لیے قربانیاں تو دنیا ہی پڑتی ہیں تو گویا آپ اس شوق پر اپنے والدین کی عزت اور غیرت کو قربان کرنے سے بھی گریزاں نہیں ۔ رانا صاحب کے اس سوال نے میرے اندر کی ضد کو ہوا دی۔

    میں نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔ اور پھر مجھے یقین ہے کہ میں جب پردہ سکرین کی ایک بڑی ہیروئن بن جاؤں گی اور میرے پاس دولت کی ریل پیل ہوگی تو بالیقین میرے گھر والے مجھ پر فخر کریں گے۔ میری یہ بات سن کر رانا صاحب نے ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگے، تو گویا فلمی ہیروئن بننے کے لیے آپ ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔

    میں نے پر عزم ہو کر کہا: کیوں نہیں، میں اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے راستے میں پڑے ہوئے کانٹے بھی اپنی پلکوں سے چن لوں گی۔ بہت خطرناک ارادے لگتے ہیں آپ کے۔ رانا صاحب گویا ہوئے۔

    اتنے میں لڑکا پر تکلف لوازمات کے ساتھ چائے لے کر آگیا۔ میں چائے۔ بنانے لگ گئی ۔ جب چائے بن گئی تو میں نے رانا صاحب سے کہا کہ آپ بھی اپنی سیٹ کی بجائے یہاں میرے ساتھ آکر چائے پیئں۔ میں حیران تھی کہ میرے اندر یہ جراٴت کیسے پیدا ہوگئی کہ میں اتنی بے باکی سے ہر بات کر رہی تھی رانا صاحب اٹھ کر آگئے اور میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے اور آہستہ آہستہ گفتگو کرنے لگے۔ دوران گفتگو انہوں نے غیر محسوس انداز میں مجھ سے یہ بات اگلوائی کہ میرا تعلق کس شہر سے اور کس گھرانے سے ہے۔

    پھر انہوں نے مجھے روشنیوں کی اس دنیا کی تاریکی کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ انہوں نے بتایا فلم انڈسٹری میں بہت سے ایسے لوگ اور گروہ بھی ہیں جو اس تاڑ میں لگے رہتے ہیں کہ جو لڑکیاں فلم میں کام کرنے کے شوق میں گھر سے بھاگ آتی ہیں، انہیں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے روشن مستقبل کے سنہرے سپنے دکھا کر یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ ان کے خوابوں کی تعبیر صرف انہی کے ہاتھ میں ہے ۔سب سے پہلے تو ان سے مال بٹورتے ہیں جو گھروں سے وہ لے کر آئی ہوتی ہیں، پھر چند دن ان کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے ہیں اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بعد پہلے تو بہلا پھسلا کر خود ان کی عزت سے کھیلتے ہیں اور پھر انہیں مجبور اور بلیک میل کر کے دوسرے لوگوں کو پیش کرتے ہیں۔ اس طرح آبرو کو نیلام کر کے اپنا کاروبار چلتے ہیں ،پھر وہ لڑکیاں نہ گھر کی رہتی ہیں اور نہ گھاٹ کی بلکہ ایک مجبور و بے کس کٹھ پتلی کی طرح ان کے حکم کے غلام بن کر رہ جاتی ہیں۔

    رانا صاحب یہ باتیں کر رہے تھے مگر مجھ پر ان کی کسی بات کا بھی اثر نہ تھا اور میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس شخص کو سیڑھی بنا کر منزل پار کر لوں گی۔

    انہی باتوں کے دوران رانا صاحب نے ایک ایسے گروہ کا بھی بتایا کہ وہ لوگ لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر فلم میں کام دینے کا لالچ دے کر سٹوڈیو میں لے کر آتے ہیں اور پھر زبردستی ان کی انتہائی گری ہوئی اخلاق سوز فلمیں بنا کر انہیں تمام زندگی بلیک میل کرتے ہیں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ ایک لمحے کے لیے تو میں چونکی پھر میں نے گھر کے بارے میں سوچا کہ اگر میں واپس بھی جاؤں تو گھر والے مجھے مار ڈالیں گے۔

    میں نے رانا صاحب کو بتایا کہ میں ہر قیمت پر فلموں کی کامیاب ہیروئن بننا چاہتی ہوں رانا صاحب کہنے لگے: تمہاری مرضی، مگر تم لاہور سے باہر کے شہر کی ہو، اس لیے تمہاری رہائش کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ میں نے اپنا پرس کھول کر ان کے سامنے ڈھیر کر دیا۔ جس میں دو لاکھ روپے اور گھر کے تمام زیورات تھے۔ میں نے رانا صاحب سے کہا کہ یہ رقم رکھ لیں اور میرے لیے کسی فلیٹ کا بندوبست کر دیں میں وہاں رہ لوں گی مگر آپ میرے ساتھ رہا کریں کیوں کہ میں اکیلی لڑکی پورے فلیٹ میں نہیں رہ سکتی۔ دل ہی دل میں مَیں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ میں اس شخص کو ہر قیمت پر ہر طرح سے سیڑھی بنا کر اپنی منزل کو پہنچ جاؤں گی رقم اور زیورات دیکھ کر رانا صاحب نے کہا: آپ انہیں پرس میں رکھیں اور کسی کو مت بتایئے گا۔ میں بندوبست کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر کچھ دیر کی معذرت کر کے وہ دفتر سے باہر چلے گئے اور لڑکے سے کہہ گئے کہ دفتر کے اس کمرے میں کسی کو مت آنے دینا۔ لڑکا برتن اٹھا کر چلا گیا اور میں اٹھ کر بڑے غور سے دیوار پر آویزاں فلم کے فوٹو سیٹ کو دیکھنے لگی اور ساتھ ہی ساتھ خود کو ان پوسٹروں پر محسوس کرنے لگی۔ عالم تصور میں مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر شخص میری ایک جھلک دینے کو بے تاب تھا اور آٹو گراف لینے کے لیے بے چین میں خود پر فخر کر رہی تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ میرے آگے پیچھے گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں۔ میرے بنگلے پر پروڈیوسروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ ہر شخص مجھے اپنی فلم میں کاسٹ کرنا چاہتا ہے۔

    Last edited by Sultana; 5th June 2010 at 02:25 PM. Reason: just move it right

Similar Threads

  1. Replies: 72
    Last Post: 9th February 2013, 06:48 PM
  2. Replies: 95
    Last Post: 1st November 2012, 12:39 AM
  3. Replies: 66
    Last Post: 29th October 2012, 02:00 PM
  4. Replies: 98
    Last Post: 20th October 2012, 09:14 PM
  5. Har Tasweer Ke Apni Kahani / Every Picture has its own Story
    By Mohammed Ishaq in forum Halat-e-Hazra
    Replies: 4
    Last Post: 2nd January 2010, 12:11 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •