عباسی خلیفہ نے کہا جو میرے ہاتھ پر بیعت نہ کرے اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی۔ ساری سرکاری عدالتیں‘ قاضی اور مفتی آگے بڑھے اور بادشاہ کے ”فتوے“ پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ تاریخ اسلام میں طلاق مکروہ (جبراً طلاق) کا یہ معاملہ بہت مشہور ہے۔ اس وقت جب سارے سرکاری ترجمان جج‘ مولوی اور چمچے بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ ایک ”دیوانہ“ بازار میں نکلا اور آواز لگائی” اِنّ الطَّلاقَ المکُروہ لیسَ بِشَئیٍٍ“(جبراً طلاق کی کوئی حیثیت نہیں) بادشاہ نے اس ”دیوانے“ کو منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھا دیا۔ ایک جلاّد کو حکم دیا گیا کہ اس کو بازار میں گھمایا جائے‘ سرعام دُرّے مارے جائیں‘ جب اس شخص کی کمر پر دُرّہ پڑتا تو وہ بلند آواز میں کہتا ”مَن عرفَنی فَقَدعرفَنیِ.... وَ مَنّ لَم یَعّرف فلیعرِفَ اَنَا مَالِک ابن الانس اقولِ اَنّ الطَلاقَ المَکُروہَ لیسَ بِشَئیٍ .... لوگو! جو جسے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو نہیں پہچان پا رہا وہ جان لے میرا نام مالک ہے میں انسؓ کا بیٹا ہوں اور علی الاعلان کہہ رہا ہوں کہ جبراً طلاق جائز نہیں۔ اس واقعہ کو ہزار سال سے زائد گزر گئے آج نہ کسی کو اس خلیفہ کا نام یاد ہے‘ نہ اس کے ججوں‘ درباریوں اور مولویوں کا‘ البتہ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جو مالکؒ اِبن انسؓ کو نہ جانتا ہو کہ یہ مالکؒ آج امام مالکؒ کہلاتے اور تمام مسلمانوں کے چوتھے امام ہیں۔
Bookmarks