فصیح الدین بھائی ، اگر اس کا حوالہ فراہم ہوجائے تو مہربانی ہوگی ۔ شکریہ۔
امید ہے کہ برا نہیں مانیں گے آپ ۔
برادر ! آپ کو کس بات کا حوالہ درکار ہے ذرا وضاحت فرمادیں تو مں آپکو حوالہ دے دوں گا کیونکہ اس تحریر میں کہیں یہ تذکرہ نہیں ہے کہ یہ نبی پاک علیہ السلام کی سنت ہے یا کوئی حدیث ہے یا اللہ کا حکم ، اس سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اللہ والوں کے معمولات اور اولیاء اللہ کے آزمودہ کار نسخے ہیں، اگر آپ کو انکی صحت پر کسی قسم کا شک ہے تو اسکی وضاحت کریں تاکہ مناسب جواب دیا جائے ورنہ بلا وجہ حوالہ طلب کرنا ایک عبث عمل ہے یا پھر حوالے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ ایک مستند اخبار کی تحریر ہے۔
امید ہے آپ بُرا نہیں مانیں گے اور جو بات میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔
شکریہ
والسلام
As Salam U Alaikum ... Ye Allah Walo Ky Azmahy Howy Nusky Hian .. Lakin Aghar Ess Par Amal Kar Ky Kissi Ko Faheydah Nahi Hota To Oh Oss Insan Ky Gunah Hoty Hain Jo Rekawat Banty Hain ; Insan Jysy Bota Hy Ossy Wysy He Katna Parta Hy.. Allah Haffiz
bohat shukrya janab
[IMG]http://i238.***********.com/albums/ff224/umairqureshi_6/qbr.jpg[/IMG]
bohat acha...... thanks
آئی ٹی دنیامیں سیگنیچرز میں اتنے بڑے سائز کی امیج لگانا سختی کے ساتھ منع ہے۔۔۔آئی ٹی دنیا ٹیم
Doctor said:
اگر آپ کو انکی صحت پر کسی قسم کا شک ہے تو اسکی وضاحت کریں تاکہ مناسب جواب دیا جائے ورنہ بلا وجہ حوالہ طلب کرنا ایک عبث عمل ہے یا پھر حوالے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ ایک مستند اخبار کی تحریر ہے۔
میاں شاہد بھائی ، یہ بات تو آپ نے ایکدم درست کہی کہ : بلا وجہ حوالہ طلب کرنا ایک عبث عمل ہے۔
لیکن دین کے معاملے میں جب عبادات یا عقائد پر بات کی جاتی ہو تو وہاں قرآن یا حدیث کا حوالہ مانگنا ضروری ہو جاتا ہے
جسے آپ جیسے اہل علم بھی خوب جانتے ہوں گے۔ ورنہ عقائد و عبادات کے نام پر ہمارے معاشرے میں جو جو بدعات رواج پا گئی ہیں ان میں مزید اضافہ در اضافہ ہوتا جائے گا۔ امید ہے اوپر کی مفصل تحریر سے آپ پر واضح ہو گیا ہوگا کہ میں نے بلا وجہ حوالہ طلب کر کے ایک عبث عمل کا ارتکاب بالکل بھی نہیں کیا تھا۔ پھر بھی آپ کو ناگوار گزرا ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) ایک دفعہ کوفہ کی ایک مسجد میں داخل ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ لوگ مختلف حلقوں میں بٹے ہوئے تھے اور ہر حلقہ میں ایک آدمی کھڑا تھا جو ان سے کہتا : سو (100) بار سبحان اللہ کہو۔
لوگ سبحان اللہ کہنا شروع کر دیتے ۔
پھر وہ آدمی کہتا : سو (100) بار الحمد للہ کہو۔ تو لوگ الحمد للہ کہنا شروع کر دیتے۔
پھر وہی آدمی کہتا : سو (100) بار اللہ اکبر کہو۔ تو لوگ اللہ اکبر کہنا شروع کر دیتے۔
عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے ان کو اس حالت میں دیکھ کر کہا :
اللہ کی قسم ! کیا تم ایسے دین پر ہو جو اللہ کے رسول سے زیادہ ہدایت والا ہے ؟ یا تم گمراہی کے دروازے کھول رہے ہو؟
(سنن الدارمی ، كتاب المقدمة ، باب في كراهية اخذ الراي ، حدیث : 206 )
دیکھ لیجئے کہ سبحان اللہ ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کے وظیفے کرنا مسنون عمل ہے یعنی دین میں ان کی اصل موجود ہے۔
لیکن اپنے طور پر جو شکل ان لوگوں نے اختیار کی وہ دورِ نبوی میں نہیں تھی لہذا اس عظیم ترین صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے اس کو گمراہی قرار دیا۔ کیونکہ اذ کار کا یہ طریقہ مسنون نہیں , بدعیہ تھا۔
تفصیل کے لیے یہاں کلک کریں ۔ شکریہ
bhai jaan aapne saheeh kahaa leken us waqeya mein aur is sharing mein boht faraq hai.....main khud khelaf hoon bidhaat ka aur agar main mehsoos karta k ye ghalat hai to kiun share kartaa.....ye sirf 1 wazeefa hai k namaz ke bad parh lia karen baaqi ALLAH hee madad karne wala hai jo preshanion ko door kartaa hai
Bookmarks