السلام وعلیکم
پاکستان کے محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ زلزلے کے بعد کے جھٹکے (آفٹرشاکس) دو ہفتے تک آسکتے ہیں لہذا نقصان سے بچنے کے لیے زلزلے سے جن عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے انھیں خالی کر دینا چاہیے۔
خیال رہے کہ پاکستان، افغانستان اوربھارت کے مختلف علاقوں میں شدید زلزلہ آنے سے اب تک کی اطلاعات کے مطابق سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے سرکاری طور پر پاکستان میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 94 جبکہ افغانستان میں 34 بتائی گئی ہے۔
شعبہ میٹرولوجی کے چیف میٹرولوجسٹ حضرت میر نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’حالیہ زلزلے سے متاثرہ عمارتوں کو فورا خالی کردینا چاہیے کیونکہ آفٹرشاکس کی صورت میں ان کے گرنے کا خدشہ رہتا ہے۔‘
حضرت میر نے بتایا کہ زلزلے کے وقت گنجان آباد علاقوں اور فلیٹوں سے باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے لیکن کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جلد از کسی کھلے میدان میں پہنچا جائے تاکہ آپ محفوظ رہ سکیں۔
’جیسے ہی زلزلہ محسوس ہو باہر نکل کر کسی کھلی جگہ پر آنا چاہیے تاکہ کوئی ملبہ آپ پر نہ گرے۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ زلزلے میں اس کی شدت شروع میں کم تھی جس کے باعث بہت سے لوگوں کو گھروں سے باہر نکل کر محفوظ مقامات پر جانے کا موقع ملا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ زلزلے سے متاثرہ علاقے میں عمارتوں میں بجلی اور گیس کی سپلائی بند کر دینا چاہیے تاکہ کسی اور حادثے سے بچا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس زلزلے سے پہاڑی علاقوں کو متاثر کیا ہے اس لیے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں رہنے والوں کو غیرضروری سفر سےگریز کرنا چاہیے کیونکہ ان علاقوں میں تودے گرد سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں زمین کےپرت کی تہّیں یا پلیٹیں، یورویشین پلیٹ اور ایشین پلیٹ آپس میں ٹکراتی ہیں جس کے باعث ان علاقوں میں زلزے آتے رہتے ہیں۔
حضرت میر کا کہنا تھا کہ زلزلے کی پیشن گوئی کرنا کافی مشکل کام ہے لیکن زلزلوں کے بارے میں بروقت اطلاع دی جاسکتی ہے اور کافی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ زلزلے کی شدت آٹھ اشارعہ ایک بتائی جا رہی ہے اور اس کے بعد اب آفٹرشاکس آ رہے ہیں جن کی ریکٹر سکیل پر شدت پانچ تک ریکارڈ کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ آفٹر شاکس دو سے تین ہفتے تک جاری رہ سکتے ہیں اس دوران احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عموما آفٹر شاکس ایک مہینے تک آسکتے ہیں لیکن حالیہ زلزلہ پہاڑی علاقے میں تھا اور اس کی گہرائی 193 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔
’اگر اس کی گہرائی اتنی زیادہ نہ ہوتی کہیں گنا زیادہ نقصان ہوسکتا تھا
Bookmarks