السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حافظ قرآن کی فضیلت
حافظ قرآن کریم کے فضائل میں کئی ایک احادیث شریفہ وارد ہیں دسویں صدی ہجری کے محدث جلیل علامہ علی متقی ہندی رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ قرآن کی فضیلت سے متعلق کنز العمال شریف میں روایتیں نقل کی ہیں: حامل القرآن حامل رایۃ الإسلام ومن اکرمہ فقد اکرم اللہ ومن اہانہ علیہ لعنۃ اللہ۔ (فرعن ابی امامۃ)۔ ترجمہ: حافظ قرآن اسلام کے جھنڈے کو اٹھانے والا ہے اور جس شخص نے اس کی تعظیم کی یقینا اس نے اللہ تعالیٰ۔ کی تعظیم کی اور جس نے اس کی توہین کی اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (کنز العمال الباب السابع: فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ الفصل الاول: فی فضائلہ فی فضائل تلاوۃ القرآن حدیث نمبر 2294) مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَاْ وَارْقَ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا فَإِنَّ مَنْزِلَتَکَ عِنْدَ آخِرِ آیَۃٍ تَقْرَؤُہَا۔ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حافظ قرآن سے کہا جائے گا: قرآن کریم پڑھتا رہ اور درجہ بہ درجہ چڑھتا رہ اور ترتیل کے ساتھ تلاوت کر جس طرح تو دنیا میں تلاوت کرتا تھا کیونکہ تیرا مقام آخری آیت کے پاس ہے جس کو تو پڑھے گا۔ (مسند احمد 6508)
حافظ قرآن کوناراض کرنے سے اللہ تعالیٰ کاغضب
حضور ﷺ نے ارشادفرمایاکہ جس رات رب ذوالجلال نے مجھے معراج کی رات شرف بخشا تو میں نے اس رات سناکہ کہنے والایہ کہہ رہاتھااے محمدﷺاپنی امت کوحکم دوکہ وہ تین اشخاص کی عزت کریں1۔عالم ربانی کی 2۔اپنے والدکی3۔حافظ قرآن کی،مزیدفرمایا۔اے محمدﷺ اپنی امت کواس بات سے ڈراﺅکہ وہ انہیں ناراض کریں یاان کی توہین کریں کیوں کہ جوانہیںناراض کریگااس پرمیراغضب شدیدہوگا۔ اے محمدﷺ!اہل قرآن ہی میرے اہل ہیں میں نے انہیں دنیا میں تمہارے پاس اسے لیے بھیجاکہ ان کے صدقے اہل دنیاکوعزت احترام حاصل ہواگرقرآن کریم ان کے سینوں میں محفوظ نہ ہوتاتومیںدنیااوراہل دنیاکوہلاک کردیتا۔اے محمدﷺ!حاملین قرآن کونہ عذاب دیا جائے گااورنہ ہی قیامت کے دن اس سے حساب لیاجائیگا۔اے محمدﷺ!حافظ قرآن جب اس دنیاسے رحلت فرماتاہے تواس پرمیرے آسمان میری زمین اورمیرے ملائکہ روتے ہیں۔اے محمدﷺ!تین شخصوںکی جنت بہت مشتاق ہے(1) آپ ﷺ کی (2)آپ ﷺ کے دونوںدوست ابوبکرؓوعمرؓکی(3)حافظ قرآن کی۔﴾الحدیث
حافظ قرآن کی عزت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حافظ قرآن کی شان کیا ہے؟ اگر کوئی پیشہ ور ملا اے کہے کہ دفع ہوجاؤ۔ تم یہ کررہے ہو وہ کررہے ہو تو یہ کہاں تک درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حافظ قرآن اور عالم دین دونوں کی فضیلت بہت زیادہ ہے اور قرآن کے حافظ ’قاری اور عالم کی عزت و احترام کرنا ہو مسلمان کا فرض ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کےدن حافظ قرآن کے والدین کے سر پر روشنی کا تاج ہوگا اور وہ اپنے والدین کے حق میں شفاعت کرے گا۔ اگر کسی نے حافظ قرآن کی توہین کی ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سےمعافی مانگنی چاہئے۔ یہ گناہ ہے۔ ایک مسلمان کو تو عام مسلمان بھائی کی بھی عزت کرنی چاہئے جبکہ حافظ قرآن اور عالم دین کا تو مقام ہی بلند ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ صراط مستقیم
ص328 ۔ محدث فتویٰ
حافظ قرآن پر رب کریم کے تعلق کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اُس کا اپنے مولیٰ کے ساتھ خصوصی ربط قائم ہو جاتا ہے۔ اﷲ عز و جل کی مدد و نصرت حافظ قرآن کے شامل حال کردی جاتی ہے، اﷲ جل شانہ کے جود و کرم، انوار و تجلیات اور ایک خاص روحانی برق کا نزول حافظ قرآن پر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو (اے مخاطب!) تو اسے دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے جھک جاتا، پھٹ کر پاش پاش ہو جاتا، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کر رہے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘ ( الحشر:21)
جلالت قرآن یہ ہے کہ اس کی عظمت وشوکت پہاڑ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’’حافظ قرآن اسلام کا علم بردار ہے، جس نے اس کی تعظیم کی، اﷲ عز و جل اس کو عزت بخشیں گے۔‘‘
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے سرور کونینؐ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ: ’’ (قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن شریف پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا، اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں پڑھا کرتا تھا۔ بس! تیرا آخری درجہ و مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر تو پہنچے۔‘‘ (ترمذی)
ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ ’’یہاں صاحب قرآن سے مراد حافظ قرآن ہے۔‘‘ طبرانی اور بیہقی میں مذکور ہے کہ ’’میری امت کے شرفاء اور باعزت لوگ حفاظ قرآن اور تہجد گزار ہیں۔‘‘ مسند الفردوس میں مذکور ہے: ’’صاحب قرآن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والا (سربلند) کرنے والا ہے۔ جس نے اس کی تعظیم کی اس نے اﷲ کی تعظیم کی اور جس نے اس کی توہین کی اس پر اﷲ کی لعنت ہے۔‘‘
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور ﷺ نے فرمایا"کیامیں تمہیں یہ نہ بتاﺅں کہ قیامت کے دن میری امت میں سب سے افضل کون ہوگاتوصحابہ کرامؓ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺاَخبِروَاَکرِم فرمائیے توآپ ﷺ نے فرمایاکہ سب سے افضل وہ لوگ ہوں گے جوقرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں قیامت کے اللہ تعالیٰ جبرائیل ؑ کوبلاکرفرمائیںگے کہ میدان محشرمیںیہ اعلان کردوکہ جوشخص قرآن کریم کی تلاوت کرتاتھاوہ اٹھ کھڑاہوجائے وہ دویاتین دفعہ اعلان کریگا۔تورحمان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والوں کی صفیں کھڑی ہوجائیں گی اوران میں سے کسی کوبھی یارائے گفتگونہ ہوگا۔یہاں تک اللہ کے نبی داﺅدؑکھڑے ہوجائیں گے۔ تواللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گے کہ اے لوگو!قرآن کریم پڑھواپنی آوازوں کو بلندکروان میں سے ہرایک اللہ تعالیٰ کی کلام سے وہ کچھ پڑھے گاجواللہ نے اُسے الہام کیاہوگا۔توجوبھی قرآن کی تلاوت کرے گا۔اللہ تعالیٰ ان میں سے ہرایک کے درجات کوانکی خوبصورت آواز،حسن لحن، غوروفکر اور تدبر کی وجہ سے بلندفرمائے گا۔پھراللہ تعالیٰ ارشادفرمائے گااے میراہل!کیاتمہیں معلوم ہے کہ دنیامیں تمہارے ساتھ کس نے زیادہ احسان کیا ہے۔وہ عرض کریں گے اے ہمارے پروردگارہم انہیں خوب جانتے ہیں تواللہ تعالیٰ ارشادفرمائے گاکہ جاﺅمیدان محشرمیںتلاش کرواوروہ آدمی جسے تم جانتے ہوکہ اس نے تمہارے ساتھ احسان کیاہے اسے اپنے ساتھ جنت میں داخل کردو۔ (درة الناصحین)
Bookmarks