السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

پاکسانیوں کی بڑی اکثریت چاہتی ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو اور کرپٹ لوگوں سے جان چھوٹ جائے اور اچھے لوگ ایماندار لوگ اس ملک کی باگ دوڑ سنبھال لیں لیکن پھر بھی ایسے لوگ پاکستانیوں پر کیوں مسلط ہیں ؟؟

کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی اکثریت ایسی ہی ہوگئی ہے

اس کی آسان مثال یوں سمجھیں کہ جیسے کوئی بزنس کے شعبے سے وابستہ ہے ، کوئی دوکاندار ہے تو کوئی سرکاری ملازم ہے تو کوئی پرائیوٹ ملازم ہے یا کوئی کسان ہے یا زمیندار ہے ۔ سب اپنے اپنے ضمیر کو گواہ بنا کر سوچیں کہ کون کون ہے جو پاکستان کا درد دل میں رکھ کر اپنی ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کررہا ہے ؟ْ؟

جس کو جہاں موقع ملتا ہے تو اپنی طرف سے کرپشن میں ملوث ہے ۔بس فرق اتنا ہے کہ کوئی چھوٹے پیمانے پر تو کوئی بڑے پیمانے پرتو جب بڑی اکثریت سے لوگ کرپشن میں ملوث ہوں گے تو ان کو رہنما کیسے اچھے مل سکتے ہیں ؟؟

یہ تو آپ لوگ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ آج اگر (دس روپے والی کرپشن میں ملوث) کسی شخص کو وزیر بنادیا جائے تو وہ کیا کرے گا ؟؟

کیا پاکستان کا درد محسوس کر کے ایمانداری سے وزارت کے فرائض ادا کرے گا
یا جب دس روپے والے کرپشن میں ملوث شخص کو اختیار دس کروڑ والے کرپشن کا مل جائے گا تو وہ وہی حرکت کرے گا جو اپنی آج کی پوزیشن (دس روپے والی کرپشن میں ) میں کر رہا ہے ۔۔ کیوں کہ جب وہ آج اپنے محدود دائرہ اختیار ہونے کے باوجود پاکستان کا درد دل میں نہیں رکھتا تو وہ وزیر بن کر کیسے ملک کا درد دل میں رکھے گا ؟؟

یہ تو جیسی کرنی ویسی بھرنی والا معاملہ ہے

ایک بادشاہ تھا وہ اپنے بستی میں ایک بڑا سا تالاب کھدواتا ہے اور پوری بستی میں اعلان کر دیتا ہے کہ آج رات کو پوری پستی والے اپنے اپنے گھروں سے ایک ایک بالٹی دودھ کی اس تالاب میں ڈالیں گے ۔۔ پھر رات کو تمام بستی والے ایک ایک بالٹی اس تالاب میں ڈال دیتے ہیں ۔۔ جب بادشاہ صبح صبح اس تالاب کو دیکھنے کے لئے جاتا ہے تو وہ حیران ہوجاتا ہے کہ پورے کا پورا تالاب بجائے دودھ کے پانی سے بھرا ہوتا ہے ۔

پتہ ہے ایسا کیوں ہوتا ہے ؟؟

کیوں کہ بستی کا ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ ہر کوئی تو دودھ کی بالٹی تالاب میں ڈال رہا ہے تو میں اگر اکیلا پانی کی بالٹی ڈال دوں گا تو اس سے کیا فرق پڑے گا اور رات بھی ہے کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا

جب پوری بستی کی ایک ہی سوچ بن گئی تو اس تالاب میں پانی ہی بھرنا تھا دودھ کہاں سے ملتا ؟؟

آج پاکستان کا یہی حال ہے کہ سب نے یہی سوچ لیا ہے کہ سب لوگ کرپشن میں ملوث ہیں اگر ایک میں کر رہا ہوں تو اس سے کیا فرق پڑے گا اور جب بڑی اکثریت نے یہی سوچ لیا تو پھر پاکستان کا ایسا حال تو بننا ہی تھا ۔ پھر ہم کس کو روتے ہیں ؟؟

کیوں کسی سے گلہ کرتے ہیں کہ فلاں سیاستدان نے ایسا کیا فلاں سرکاری افسر نے ویسا کیا ؟؟

یہ تو سوچیں کہ ہم نے کیا کیا ؟؟

کیا ہم نہیں ذمہ دار پاکستان کی تباہی کے ؟؟

ہم گلہ کرتے ہیں کہ سارا تالاب پانی سے بھرا ہوا ہے

یہ تو سوچیں کہ ہم نے کبھی دودھ کی بالٹی ڈالی ؟؟

ایک چھوٹا سا واقعہ بطور پیغام

جب حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا تو ایک ننھی سی چڑیا تھی جو اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لاتی اور آگ کے پاس گرا دیتی
کسی نے دیکھا تو ہنس کے کہا کہ اے ننھی سی چڑیا کیا تیرے اس پانی سے آگ بجھ جائے گی ؟؟

اس پر چڑیا نے کہا میں جانتی ہوں کہ میرے اس پانی سے آگ نہیں بجھے گی لیکن میں بروز قیامت تماشہ دیکھنے والوں کی صف میں کھڑے ہونے کے بجائے آگ بجھانے والوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہتی ہوں

ہم یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے ایک کے کرنے سے کیا ہوگا لیکن اس واقعہ میں سبق ہے چاہے الاؤ کتنا ہی بھڑکتا کیوں نا ہو اور آپ کی کوشش چاہے معمولی قطرے کی مانند کیوں نا ہو لیکن آپ اپنے فریضہ سے ناصرف سبکدوش ہوں گے بلکہ روز محشر تماشہ دیکھنے والوں کے بجائے کچھ کرنے والوں کی صفوں میں شامل ہوں گے

آپ اپنی طرف سے پانی ڈال دیں ۔ آپ اپنی طرف سے دودھ کی بالٹی ڈالنا شروع کریں ۔ کم سے کم آپ کا فریضہ ادا ہوجائے گا ۔ اور جب اکثریت یہ عمل شروع کردے گی تو یقینا پھر تالاب میں پانی کے بجائے دودھ نظر آنے لگ جائے گا

والسلام

بشکریہ محترم ناصر نعمان بھائی