اسلام و علیکم


حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھاچاہتا ھے
باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ھے

اک لمحے کی محبت نہیں حاصل اس کی
اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ھے

اک حجاب تہہ اقرار ہے مانع ورنہ
گل کو معلوم ہے کیا دست صبا چاہتا ھے

ریت ہی ریت ہے اس دل میں مسافرمیرے
اور یہ صحرا تیرا نقش کف پا چاہتا ہے

یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہو گی
اور کچھ روز، کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ھے

رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن
رات کے ہاتھہ پہ اب کوئی دیا چاہتا ھے

تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اورتری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ھے


پروین شاکر