بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی


لے گیا چھین کے کون آج تیرا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

تیری آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی

عکس رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی

کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفر سے ہر بار
خو تری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی

بہادر شاہ ظفر