مری مٹی سے مرے خوابوں کے رشتے محکم کرنے کے لئے
اک درد مسلسل جاگتا ہے دل و جاں کو بہم کرنے کے لئے

جہاں وحشت کرنا سیکھا تھا جہاں جاں سے گزرنا سیکھا تھا
مرے آہو مجھے بلاتے ہیں اسی دشت میں رم کرنے کے لئے

وہ جو اوّل عشق کی شدت تھی وہ تو مہر دونیم کی نذر ہوئی
اب پھر اک موسم آیا ہے مجھے مستحکم کرنے کے لئے

یہ سارے ادب آدابِ ہنر یوں ہی تو نہیں آ جاتے ہیں
عمریں تج دینی پڑتی ہیں اک حرف رقم کرنے کے لئے

موت آئی اور دل کی دہلیز پہ بوسہ دے کر لوٹ گئی
مرے مہمان آئے بیٹھے تھے تازہ دم کرنے کے لئے

مرے مالک مجھ کو غنی کر دے کہ شکست کے بعد مِرا دشمن
مری تیغ کا طالب ہے مجھ سے مرے ہاتھ قلم کرنے کے لئے







.