ہم مختصرا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت کی سند کی وضاحت پیش کردیتے ہیں .... جس سے اُن صاحب کو یہ سمجھنے میں دشواری نہیں پیش آئے گی کہ روای کے ضعیف ہونے سے متن کا ضعف لازم نہیں آتا .
معزز قارئین کرام !
جس طرح حدیث کی سند کا صحیح ہونا اس کے متن کی صحت کو مستلزم نہیں ہے "کما قالہ المبارکپوری "ابکار السنن ص 24" اسی طرح سند کا ضعیف ہونا بھی اس کے متن کے ضعف کو مستلزم نہیں
چناچہ عبد الرحمن مبارکپوری امام ترمذی کے قول "ھذا الحدیث لایصح من قبل اسنادہ (یعنی یہ حدیث اسناد کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے) کے تحت لکھتے ہیں "ای من حدیث اسنادہ وان کان صحیحا باعتبار معناہ " یعنی یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اگر چہ اس کا معنی(مضمون) صحیح ہے .
معلوم ہوا کہ کوئی حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے باوجود مضمون کے لحاظ سے صحیح ہوسکتی ہے
یہ اہم اور قیمتی نکتہ سمجھ لینے کے بعد اب آجائیں ابراھیم بن عثمان ابو شیبہ پر جرح کی طرف
اگر چہ اس روایت راوی ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ مجروح ہے جس کوامام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ ،امام زیلعی رحمتہ اللہ علیہ ، امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے
لیکن ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ اتنا ضعیف نہیں کہ ان کی روایات کو بالکل موضوع قرار دے دیا جائے یا رد کردیا جائے.... کیوں کہ دوسری طرف ائمہ رجال نے اس کی توثیق بھی کی ہے
چناچہ امام شعبہ بن الحجاج نے اس سے روایت لی ہے
(تہذیب الکمال (ج 9 ص 390)(تہذیب التھذیب ج 1 ص 144)
اور غیر مقلدین کے ہاں یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ امام شعبہ صرف اسی راوی سے روایت لیتے ہیں جو ثقہ ہو اور اس کی احادیث صحیح ہوں ...چناچہ مولانا عبد الروءف سندھو لکھتے ہیں "شیخ احمد شاکر (جو غٍیر مقلدین کے بہت بڑے عالم تھے ناقل) فرماتے ہیں کہ محمد بن مہران سے شعبہ نے بھی روایت لی ہے اور وہ ثقہ ہی سے روایت لیتے ہیں
(القول المقبول صلوۃ الرسول ص 386)
علامہ شوکانی اور مولانا عبد الرحمن مبارک پوری وغیرہ لکھتے ہیں کہ "امام شعبہ اپنے مشائخ سے صرف وہی حدیث بیان کرتے ہیں جو صحیح ہوتی ہے "
(نیل الاوطار ج 1 ص 16 )(ابکار المنن ص 147 ،150)
اب سوال یہ ہے کہ اگر ابو شیبہ اتنا ہی ضعیف راوی ہے اور اس کی حدیث صحیح نہیں تو پھر امام شعبہ نے اس سے روایت کیوں بیان کی ہے ؟
امام ابن عدی ابو شیبہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "لہ احادیث صالحۃ " کہ ابو شیبہ کی احادیث درست ہیں
(تھذیب الکمال ج 1 ص 393)
واضح رہے کہ امام ابن عدی نے ابو شیبہ کی احادیث کو تو صالح کہا ہے لیکن انہوں نے عیسی بن جاریہ (جو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے مروی گیارہ رکعات والی روایات کی راوی ہیں ) کے بارہ میں فرمایا ہے "احادیث غیر محفوظۃ کہ اس کی احادیث غیر محفوظ ہیں
(تھذیب التھذیب ج 8 ص 187)
اب جس کی روایات صالح اور درست ہیں وہ تو غیر مقلدین کے نزدیک نہایت ضعیف راوی ہے لیکن جس کی احادیث غیر محفوظ اور شاذ ہیں وہ غیر مقلدین کے ہاں اونچے درجے کا ثقہ راوی ؟؟عجب انصاف ہے ؟
امام بخاری کے استاذ الاستاذ حضرت یزید بن ھارون رحمتہ اللہ علیہ جو ابو شیبہ کے زمانہ قضاء میں ان کے کاتب اور منشی تھے ،وہ بھی ابو شیبہ کے بڑے مداح تھے .چناچہ وہ اس بارے میں یہاں تک فرماتے تھے : ابراھیم ابو شیبہ سے بڑھ کر اپنے زمانے میں کوئی قاضی عادل نہیں ہوا
(تھذیب الکمال ج 1 ص 392)
اب جو شخص قضاء اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں اتنا بڑا عادل ہے وہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرنے میں عادل کیوں نہیں ہوگا ؟
اور روای کے ثقہ ہونے کے لئے دو چیزیں بنیادی طور پر دیکھی جاتی ہیں ،ایک ضبط یعنی قوت حافظہ اور دوسری عدالت ...چناچہ عبدالرحمن مبارک پوری لکھتے ہیں کہ "راوی کے ثقہ ہونے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں نمبر 1.عدالت .نمبر 2 . قوت حافظہ
اب امام ابن عدی کا ابو شیبہ کے بارے میں "لہ احادیث صالحۃ " کہنا ابو شیبہ کے ضبط اور قوت حافظہ کو ثابت کرتا ہے کیوں کہ اس کا حافظہ اگر قوی نہیں تو اس کے پاس صالح اور درست احادیث کیسے آگئیں ؟ اور یزید بن ہارون کی اس شہادت کے بعد تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اونچے درجے کے عادل تھا .
امام ابن عدی نے ابو شیبہ کے بارے میں فرمایا کہ " لوگوں نے اگر چہ ابو شیبہ کو ضعیف کی طرف منسوب کیا ہے لیکن وہ ابراھیم بن ابی حیہ سے بہتر ہے(تھذیب الکمال ج 1 ص 393)
اور ابراھیم بن حیہ کے بارے میں امام الرجال حضرت یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ " شیخ ثقہ کبیر" یہ شیخ ہیں اور بہت بڑے ثقہ ہیں .... یعنی یہ امام ابن معین کی طرف سے ابراھیم بن ابی حیہ کی زبردست اور مقرر توثیق ہے کیوں کہ لفظ ثقہ الفاظ تعدیل میں سے تو ہے ہی ،لفظ شیخ بھی الفاظ تعدیل میں سے ہے
(دیکھیے توضیح الکلام ج 1 ص 480)
نیز مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں "اصول حدیث کے طالب علم پر مخفی نہیں کہ مقرر توثیق تعدیل میں درجہ اول کے الفاظ شمار ہوتے ہیں
(توضیح الکلام ج 1 ص 268)
اگر چہ ابن ابی جیہ پر جرح بھی کی گئی ہے
چناچہ امام نسائی فرماتے ہیں ضعیف .ابن المدینی فرماتے ہیں لیس بشئ... امام ابو حاتم اور امام بخاری فرماتے ہیں منکر الحدیث ...امام دارقطنی فرماتے ہیں متروک ...ابن حبان نے بھی جرح کی ہے ہے
لیکن اس کی بہت بھاری توثیق بھی کی گئی ہے ...لہذا یہ مختلف فیہ راوی ہے .... اور غیر مقلدین کے مشہور حافظ گوندلوی صاحب لکھتے ہیں کہ جب راوی مختلف فیہ ہو تو اس کی حدیث حسن ہوتی ہے
(خیر الکلام ص 228)
تو جب ابن ابی حیہ اس درجہ کا راوی ہے کہ بقول غیر مقلدین اس کی حدیث حسن ہوتی ہے تو پھر ابراھیم ابو شیبہ جو اس سے بہتر ہے اس کی حدیث کیوں قابل قبول نہیں ؟
معزز قارئین کرام !
اگر ابراھیم ابی شیبہ پر کی جائی جانے والی جرحوں کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہ سامنے آئے گا کہ ابراھیم ابی شیبہ پر جتنی جرحیں کی گئیں ہیں وہ مبہم اور غیر مفسر ہیں .... اگر ان جرحوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جائے تو یقینا موضوع زیادہ طویل ہوجائے گا .... لہذا ہم بجائے طویل راستہ اختیار کرنے کے بات کو مختصر کرتے ہیں.
مشہور غیر مقلد لکھاری مولانا صادق سیالکوٹی کی کتاب صلوۃ الرسول غیر مقلدین کے درمیان نہایت مشہور اور معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے اور یہ کاتب غیر مقلدین کے تمام اکابر ( مولانا داود غزنوی ،مولانا اسمعیل سلفی،مولانا عبداللہ امرتسری،مولانا نورحسین گرجھاکھی،مولانا احمد دین لتھا گھگڑوی اور مولانا محمد گوندلوی وغیرہ کی مصدقہ ہے )اس کتاب میں مولانا صادق صاحب نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کی دلیل کے طور پر ابن ماجہ کے حوالہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے
(صلوۃ رسول ص 434)
حالانکہ یہ روایت بھی ترمذی اور ابن ماجہ میں اسی ابو شیبہ سے مروی ہے لیکن پھر بھی مولانا سیالکوٹی اس روایت سے استدلال فرماتے ہیں اور خود انہوں نے بھی اور اُن کی کتاب کے مصدقین حضرات نے بھی اس روایت کے راوی ابو شیبہ کے ضعف کی طرف کوئی ادنی سا اشارہ بھی نہیں فرمایا ؟؟؟
معزز قارئین کرام کیا یہی انصاف ہے ???
اب آخر میں ملاحظہ فرمائیں کہ غیر مقلدین کے نزدیک بھی معتبر شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کیا فرماتے ہیں :
امام بیہقی ایں روایت تضعیف نمودہ بعلت آنکہ راوی ایں حدیث جدا بی بکر ابی شیبہ است حالانکہ جد ابی بکر بن ابی شیبہ آں قدر ضعف ندارد کہ روایت او مطروح ساختہ شود (فتاوی عزیزیہ ج 1 ص 911)
یعنی امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے اس روایت کو اس بنا پر ضعیف قرار دیا ہے کہ اس روایت کا ایک راوی ابو شیبہ جو ابو بکر بن ابی شیبہ کا دادا ہے ضعیف ہے حالانکہ ابو بکر بن ابی شیبہ کا دادا اس قدر ضعیف نہیں کہ اس کی روایت کو مسترد کردیا جائے .

امید ہے اس ساری وضاحت کے بعد اُن صاحب کا کافی تشفی ہوگئی ہوگی

اور آخری عرض یہ ہے کہ مولانا اسمعیل سلفی (سابق ناظم اعلیٰ جمعیت اہل حدیث ) ابن ماجہ کی ایک ضعیف روایت کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "ابن ماجہ کی اس حدیث کو ضعیف ہونے کے باوجود جمہور امت نے بھی قبول کیا ہے "حرکۃ انطلاق
الفکری ص 441)
لہذا اس حدیث کی سند کو اگر چہ کتنا ہی ضعیف نہیں مان لیا جائے لیکن بہرحال یہ بات ضرور ہے کہ اس حدیث کا متن بالکل صحیح اور قابل عمل ہے ...کیوں کہ اس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہے کہ تمام امت نے بالاتفاق اس کے مضمون (بیس تراویح) کو عملی طور پر قبول کیا ہے ...خصوصا خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دور مسعود میں اس حدیث کو شرف قبولیت حاصل رہا ہے ...چناچہ نواب صدیق الحسن صاحب یہ حقیقت بے چوں چرا تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں "وقدعدواماوقع فی زمن عمر رضی اللہ عنہ کالاجماع (عون الباری 1 /317)یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جو طریقہ (بیس تراویح کا) رائج ہوا اس کو علماء سے مثل اجماع کے شمار کیا ہے

ضروری گذارش : ہم نے یہ ساری وضاحت بحث کی نیت سے نہیں لکھی ہے بلکہ اُن صاحب کی تسلی و تشفی کے لئے لکھی ہے .... لہذا ہماری خصوصی طور پر اُن صاحب سے اور عمومی طور پر تمام قارئین کرام سے گذارش ہے کہ اس موضوع پر مزید بحث کرنے کے بجائے معلومات کی حد تک محدود رکھیں ... نیز اگر اُن صاحب کو مزید تشنگی باقی رہ گئی ہو تو ہماری اُن سے ایک بار پھر گذارش ہے کہ وہ براہ مہربانی اس موضوع پر مزید کسی سوال جواب یا اعتراضات کرنے کے بجائے کسی دارالافتاء یا کسی عالم سے رجوع فرمائیں ....کیوں کہ اس موضوع کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جونہ تو قلیل وضاحت میں اور نہ ہی یہاں اوپن فورم پر یا پی ایم پر نہیں سموئے جاسکتے....امید ہے کہ اس دفعہ اُن صاحب کو ہماری بات سمجھ آجائے گی

اور آخری بات پھر وہی ہے جو ہم اُن صاحب کو بار بار کہہ چکے ہیں کہ ماننے والے کے لئے چند دلائل کافی ہیں اور نہ ماننے والے کے لئے ہزاروں دلائل بھی ناکافی ہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے .آمین