شکر ہے تیرا خدایا میں تو اس قابل نہ تھا
تو نے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا
اپنا دیوانہ بنایا میں تو اس قابل نہ تھا
گرد کعبے کے پھرایا میں تو اس قابل نہ تھا
مدتوں کی پیاس کو سیراب تو نے کردیا
جام زم زم کا پلایا میں تو اس قابل نہ تھا
ڈال دی ٹھنڈک میرے سینے میں تو نے ساقیا
اپنے سینے سے لگایا میں تو اس قابل نہ تھا
بھا گیا میری زبان کو ذکر الا اللہ کا
یہ سبق کس نے پڑھایا میں تو اس قابل نہ تھا
خاص اپنے در کا رکھا تو نے اے مولا مجھے
یوں نہیں در در پھرایا میں تو اس قابل نہ تھا
میری کوتاہی کہ تیری یاد سے غافل نہ رہا
پر نہیں تو نے بھلایا میں تو اس قابل نہ تھا
میں کہ تھا بے راہ تو نے دستگیری آپ کی
تو ہی مجھ کو در پہ لایا میں تو اس قابل نہ تھا
عہد جو روز ازل میں کیا تھا یاد ہے
عہد وہ کس نے نھبایا میں تو اس قابل نہ تھا
تیری رحمت تیری شفقت سے ہوا مجھ کو نصیب
گنبد خضراء کا سایہ میں تو اس قابل نہ تھا
میں نے جو دیکھا سو دیکھا بارگاہ قدس میں
اور جو پایا سو پایا میں تو اس قابل نہ تھا
بارگاہ سید الکونینٌ میں آکر نفیس
سوچتا ہوں کیسے آیا میں تو اس قابل نہ تھا
(حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ)