Quote Fasih ud Din said: View Post




طالبان رہ رہے ہیں ۔۔ پوسٹ کا مقصد کوئی فرقہ واریت نہیں اس لیے ایک بار غور سے پڑھیں

الحمداللہ میں ایم ایس کر رہا ہوں اور چونکہ میری کلاسس رات کو ہوتی ہیں تو پہلے دو سیمیسٹرز کے لیے میں نے اپنی رہائش واہ کینٹ میں ایک ہاسٹل میں رکھی۔۔ اور پہلے سیمیسٹر میں جمعہ کا دن میرا وہیں آ جاتا تھا اس لیے جمعہ کی نماز وہیں کسی مسجد میں ادا کرتا تھا۔

آج سے ایک سال قبل جب ہاسٹل کا انچارج ملا تو باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ کچھ دن پہلے ایک بندہ تمہارے بارے میں بری بری باتیں کر رہا تھا۔۔ میں نے کہا مثلاً کیا باتیں؟؟ ہاسٹل انچارج نے بتایا کہ وہ بریلوی ہے اور کہہ رہا تھا کہ بھائی صاحب آپ کے ہاسٹل میں طالبان رہ رہے ہیں ۔ ہاہا ،، میں نے ہاسٹل انچارج سے کہا کہ اگر میرے متعلق وہ ایسا کہہ رہا تھا تو میری ذات کو ایسی باتوں سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ لوگوں اور بالخصوص جاہلوں کا منہ بند کرنا کسی کے بس کی بات تو ہے نہیں۔۔ انچارج نے کہا کہ فصیح بھائی آپ اہلحدیث کی مسجد میں جمعہ پڑھتے ہیں 1:30 بجے اور چونکہ آپ ہاسٹل کے قریب ان کی دو مساجد چھوڑ کر آگے اہلحدیث کی مسجد جاتے ہیں شائد اسی لیے اس نے ایسا کہا۔

میں نے جواب دیا کہ بات یہ ہے ان حضرات کی مساجد میں جمعہ کی نماز دو بجے اور سوا دو بجے ہوتی ہے۔۔ جبکہ میں جلدی پڑھ لیتا ہوں تو اس سے کسی کو کوئی تکلیف یا مسئلہ تو ہونا نہیں چاہیے۔۔ اور اگر میں فرقہ واریت کا شیدائی ہوتا تو زیادہ دور جا کر تبلیغی مسجد یا دیوبند حضرات کی مسجد جاتا کیونکہ میرا زیادہ رحجان وہیں کا ہے لیکن میں چھوٹی باتوں میں نہیں پڑتا۔ جہاں تک بات ہے اس بندے کی میرے بارے میں ڈسکشن کی تو سیدھی بات ہے کہ ایک تو اسے یہ خار ہے میں انکی مسجد میں کیوں نہیں آتا اور دوسرا یہ کہ اتفاق سے ان دنوں میرے بال کچھ بڑے ہیں اور جمعہ کے وقت میں نے سر پر ایک عدد ٹوپی پہنی ہوتی ہے،، تو اگر اس نے بڑے بالوں کی وجہ سے طالبان بنا دیا تو حیرت کی بات نہیں ہے۔۔ ویسے بھی اس قوم کی مجموعی طور پر جو ذہنی حالت ہے اسکے نمونے روز سامنے آتے ہی رہتے ہیں۔

میں نے ہاسٹل انچارج سے سلام دعا کی اور واپس آ کر اپنا کام کرنے لگا۔۔ لیکن اس بندے کے حق میں دعا کی کہ اللہ پاک اسے کنویں کا مینڈک بننے سے بچائیں اور اسکی سوچ اور ذہن بہتر ہو۔

صرف بال بڑھا لینے سے کوئی طالبان بن جانا ہے؟؟ ایسا ہے تو سنگر سلمان کے اتنے بڑے بڑے بال ہیں لیکن وہ تو گانے گا رہا ہوتا ہے۔۔ ایسی اور بھی سینکڑوں مثالیں ہیں۔۔ رہا مسجد کا تو میری مرضی میں جہاں جا کر نماز پڑھوں اور عبادت کروں۔ اور رہا طالبان کا معاملہ تو بڑے بال ، بڑی داڑھیاں ، اونچی شلواریں اب بات اس سے بہت آگے نکل چکی ہے۔۔ کیونکہ ریزر انکے پاس بھی ہو سکتے ہیں اور پینٹ شرٹس انکی دسترس سے باہر نہیں اور حکمت عملی کے تحت اپنی چالیں یہاں کوئی بھی چل سکتا ہے۔۔ اس لیے اب کوئی پتہ نہیں کہ کون کیا ہے اور کیسا ہے۔۔ میری اس بات کو سمجھدار لوگ سمجھ جائیں گے۔ لیکن جاہلوں کی سوچ بس ٹوپی اور بالوں میں اٹکی ہے۔

اس قوم کی حالت تب تک نہیں سدھر سکتی جب تک اس کے لوگوں کا ذہن مثبت اور فکر بہتر نہیں ہوگی۔۔ بیماری والا ذہن اور شودی سوچ سے بندہ ذلیل ہی ہوتا ہے اور قومیں رسوا ہوتی ہیں جیسا کہ یہاں چل رہا ہے۔

اللہ پاک مجھے اور سب کو صحیح راہ پر چلنے والا بنائیں اور حق بات کرنے، سننے، سمجھنے، پھیلانے اور عمل کرنے والا بنائیں۔۔ آمین
جزاکﷲ۔۔۔آپ نے بہت گہری باتیں کی ہیں اور فصیح بھائ