Results 1 to 12 of 71

Thread: اپنی ذمہ داری کو پہچانو

Threaded View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Sultana's Avatar
    Sultana is offline Advance Member
    Last Online
    5th November 2022 @ 02:49 PM
    Join Date
    02 Feb 2009
    Location
    ☼☼&
    Gender
    Female
    Posts
    36,591
    Threads
    1438
    Credits
    1,255
    Thanked
    4214

    Default اپنی ذمہ داری کو پہچانو

    سلام دوستو!
    میں آپ کی دُعاؤں سے ٹھیک ہوں۔اور آپ سب کی خیریت مطلوب چاہتی ہوں۔
    آج میں بہت عرصہ بعد لیکن ایک واقعہ کے ساتھ حاضر ہوں۔یہ واقعہ میرے پڑوس میں پیش آیا ہے۔
    یہ کہانی ہے ایک ایسے لڑکے کی جو اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے اور دو بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔جو کے ایک ایسا student تھا۔جس کا کلاس میں ہونا اُستاد کے لیئے باعث فخر تھا۔جس کی مثال دوسروے students کو دی جاتی تھی۔مگر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نےنہ صرف اُس کی بلکہ اُس کی تمام فیملی کی زندگی بدل کر رکھ دی۔یہ سب حالات صرف ایک انسان کی لاپرواہی اور بذدلی کی بدولت ہے۔کہانی کچھ یوں ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    خرم نامی ایک لڑکا جو کہ ہمارے پڑوس میں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔اُس کے والد مل میں ڈپٹی مینجیر ہیں۔اچھے گھرانے کے مالک ہیں۔خرم ایف ایس سی پارٹ 2 کا student ہے۔
    روز کی طرح خرم آج بھی کالج سے آنے کے بعد ظہر کی نماز ادا کر کے کھانے کے لیئے اپنی فیملی کے ساتھ ہال میں آگیا۔سب نے کھانا مل کر کھایا۔کھانے سے فارغ ہو کر سب سونے کو اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔مگر خرم نے اپنی کتابوں کو ترتیب دیا۔کیونکہ اب اُس کی ٹویشن کا ٹائم ہو رہا تھا۔پورے تین بجے اپنے گھر سے روانہ ہوا۔اس بات سے بے خبر کہ آج ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو اُس کی ذندگی بدل کے رکھ دے گا۔اور اُس کو اس قدر محتاج کر دے گا کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنا تو دور کی بات ہے۔وہ تو خود کی مرضی سے پانی کا ایک گلاس بھی نہ پی پائے گا۔
    خرم اپنے بیگ کے ساتھ گھر سے نکلا۔آج سڑکیں کچھ زیادہ ہی سنسان تھی۔مگر خرم اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔اپنی گلی سے نکل کر سامنے سڑک پر آ کھڑا ہوا۔کیونکہ اُس کو سڑک پار کرنی تھی۔جیسے ہی لال بتی جلی خرم نے ایک نظر سڑک کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک ڈالی۔راستے کو اپنے لیئے محفوظ تصور کر کے خرم نے سڑک کو پار کرنا شروع کیا۔سڑک پار کرنے کے بعد اُس کو بائیں جانب مڑنا تھا۔جیسے ہی وہ مڑنے لگا ایک تیز رفتار بائیک نے خرم کو بُری طرح زخمی کر دیا۔چند قدم آگے جاکر بائیک والا رُکا۔مگر جب اُس نے یہ دیکھا کہ لڑکا بہت زیادہ زخمی ہوگیا ہے تب اُس نے ایک بار پھر سے اپنی بائیک کو تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑہا دیا۔
    اب خرم زخمی حالت میں سڑک پر پڑا تھا۔پانچ منٹ بعد ایک پھیری والے نے دور سے ایک لڑکے کو زخمی پایا۔وہ بھاگا بھاگا اُس کے پاس آیا۔پھیری والے نے آس پاس میں سے لوگوں کو مدد کے لیئے اکٹھا کیا۔جس میں سے کسی نے ریسکیو والے کو فون کر کے بولایا۔یہ سارے کام کوئی پانچ سے پندرہ منٹ کے درمیان ہوئے ہونگے۔تب تک سب لوگ خرم سے حادثے کے بارے میں پوچھ چُکے تھے۔مگر اس ہی دوران خرم کی ٹانگوں سے کافی خون بہہ چُکا تھا۔گاڑی آئی اور خرم کو اس میں نہایت احتیاط کے ساتھ سوار کیا گیا۔موقعہ پر موجود ایک آدمی نے خرم کے گھروالوں کو بھی اطلاع کر دی۔سب ہسپتال پہنچے۔ڈاکٹر نے خرم کا اعلاج شروع کر دیا۔دائیں ٹانگ کی ہڈی تین جگہوں سے ٹوٹ چُکی تھی۔جس کا صرف واحد حل یہ ہوا کہ خُرم کی ٹانگوں میں پلیٹس ڈالنی پڑی اور اُن کو سُکریو سے کسنا پڑا۔
    خُرم کے گھر والوں کو ڈاکٹر نے بتایا کہ خُرم تقریبا چھ سات ماہ تک چل نہیں پائے گا۔مگر اس کے باوجود بھی ڈاکٹروں کو یہ یقین نہیں تھا کہ اب خُرم کھبی ٹھیک طریقے سے چل بھی پائے گا کے نہیں۔ڈاکٹر نے بتایا کہ معاملہ اتنا بھی خراب نہ ہوتا اگر خون اس قدر ضائع نہ ہوتا۔
    کئی دن ہسپتال میں رہنے کے بعد وہ نوجوان جو اپنے پیروں پر چل کر اپنے گھر سے باہر گیا تھا۔آج وہ ایک وہیل چیر پر اپنے گھر میں لوٹ رہا تھا۔اب اُس کی فلور بیڈنگ کو اُس کی وہیل چیر کی اُنچائی کے مطابق کر دیا گیا۔تاکہ اُس کو اُٹھانے اور چیر پر بیٹھا نے میں زیادہ تکلیف نہ ہو۔اب اُس کے کمرے کی الماری کو بھی نیچے کیا گیا تاکہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کا اتنا بھی محتاج محسوس نہ کرے۔مگر یہ تو وہی جانتا ہے جو حالاتوں میں سے گُزر رہا ہوتا ہے۔آپ یہ دیکھیے کہ وہ ایک جوان لڑکا جس کی زندگی کا مقصد صرف اپنے ماں باپ کے خوابوں کو پورا کرنا ہے۔اور خود کو ایک باعزت مقام پر دیکھنے کی چاہ ہے۔اور اب وہ خود سے باتھ روم بھی نہیں جا سکتا۔اب صرف اُس کے والد صاحب ہیں جو اُس کو باتھ روم لے جاتے ہیں،کپڑے پہناتے ہیں۔اُن کا گھر اُن کے آفس کے پاس ہی ہے۔جب خُرم کو باتھ رُوم جانا ہوتا ہے تو وہ اپنے والد کو فون کرتا ہے۔اور وہ سب کچھ چھوڈ کر اپنے بیٹے کے پاس آجاتے ہیں۔
    اب آپ زرا خُود ہی سوچیئے کہ اگر بائیک والا لاپرواہی نہ کرتے ہوئے اپنی رفتار کم رکھتا یاں مُوڈ مُوڈنے سے پہلے ہارن بجا دیتا تو شاید یہ حادثہ پیش نہ آتا۔یہ پھر اگر وہ حادثہ ہونے کے بعد اپنی بذدلی کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے خُرم کے بروقت ہسپتال پہنچا دیتا تو شاید پھر بھی اتنا نقصان نہ ہوتا۔لیکن اُس نے اُس وقت نہ صرف لاپرواہی کا بلکہ بذدلی کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے ایک زخمی کو تڑپتا چھوڑ گیا۔وہ اس وقت اپنے روزمرہ کے کاموں میں اس طرح مصروف ہوگا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ۔اگر وہ کہیں یہ کہانی پڑرہا ہے تو آئندہ کے لیئے خُدارا احتیاط کرئے۔تاکہ پھر سے کوئی ہونہار انسان اس طرح کے حادثے کا شکار نہ ہو۔
    ضرورت تو ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ہے۔مجھے اُمید ہے کہ ہم سب اس بات پر غور کرئیں گے۔ اللہ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔اور ہم کو وہ جرت عطاء کرئے جو ہم کو کسی بھی مصیبت میں اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹنے نہ دے۔{آمین}اور آپ سب خُرم کے لیئے بھی دُعا کرئے کہ اللہ اُس کو جلد صحت یاب فرما دے۔{آمین}
    اگر اس تحریر میں کوئی کمی ہو تو معاف کیجیئے گا۔آپ کے جوابوں کی منتظر۔
    سلطانہ مصطفہ
    اللہ حافظ
    Last edited by Sultana; 4th January 2010 at 03:35 PM.

Similar Threads

  1. Replies: 9
    Last Post: 11th January 2013, 09:58 AM
  2. Replies: 4
    Last Post: 29th June 2011, 08:12 PM
  3. Replies: 22
    Last Post: 5th May 2011, 09:55 AM
  4. Replies: 10
    Last Post: 9th March 2010, 05:55 PM
  5. Replies: 21
    Last Post: 6th October 2009, 11:18 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •