مری آنکھوں کو تھامے تم
مری آواز کے جنگل میں کھو جاتی
تو اکثر شام ہوجاتی
مگر جب شام گہری ہونے لگتی تھی
ہم اک دوجے کا غم پہنے
گھروں کو لوٹ جاتے تھے
ہماری حیرتوں نے جب
حقیقت کے کنارے چھو لیے تو
ہم پُرانے رابطوں سے کٹ گئے تھے
ہم نئی تصویر کی تقدیر بننا چاہتے تھے
جو کبھی ٹوٹے نہ وہ
زنجیر بننا چاہتے تھے
مگر پھر حادثوں کا دور تھا
ہم جسے جو سوچتے تھے
وہ تو بالکل وہ نہ تھا
کچھ اور تھا
ہوا کہتی ہے اب تم
آسماں کی وسعتوں میں کھو گئی ہو
غم کی دُنیا سے پرے
اس پار کے جنگل میں
مشکل بھول کر اب سو گئی ہو
شام کے بڑھتے ہوئے سائے نے
میرا درد سن کر کہہ دیا ہے
اسے مسافر ہوش کر
تصویر کے سائے سے ڈر
اب محبت کے حوالوں سے مہکتی زندگی
اک خواب ہے
Bookmarks