very nice....
جن لوگوں نے رومن میں کمنٹس دیے وہ اس کا ستیا ناس کر رہے ہیں ، رُولز کو فالو ہی کوئی نہیں کر رہا ، کوئی گل نہیں یہ ہم لوگو ں کی عادت ہے ،
چلو میری طرف سے ایک بار پھر
اجازت ہو تو کوئی معصوم سی دعا کر لوں
لفظ زندگی کو میں کو ئی حرفِ وفا کر لوں
بدل لیتے ہیں جہاں سے ستارے راہ اپنی
وہاں سے تمہیں دیکھنے کی میں خطا کر لوں
جہاں شاعری وصف ہے عشق والوں کا
وہیں ڈوب کر خود کو عشق ک انتہا کر لوں
اِک عرصہ ہوا تمہیں سوچا نہیں میں نے
ذرا ٹھہر جاؤ تو اپنے خیالوں کی ابتداء کر لوں
بہت مصروف رکھتے ہیں لمحے شام کے مجھے
اگر کہو تو خود کو ان لمحوں سے جدا کر لوں
سنا ہے چاندنی بانٹتا ہے چاند ستاروں میں
سوچتا ہوں خود کو تمہارا کوئی ستارا کر لوں
چھپا سکوں جہاں تمہیں دنیا کی نظروں سے
شہزاد ٹھہرو ذرا میں خود کو اتنا گہرا کر لوں
زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد
حوصلہ دینا انہیں میرے خدا میرے بعد
ہاتھ اٹھاتے ہوئے ان کو نہ کوئی دیکھے گا
کس کے آنے کی کریں گے وہ دعا میرے بعد
کون گھونگٹ کو اٹھائے گا ستمگر کہہ کر
اور پھر کس سے کریں گے وہ حیا میرے بعد
پھر زمانے میں محبت کی نہ پرسش ہو گی
روئے گی سسکیاں لے لے کے وفا میرے بعد
وہ جو کہتا تھا کہ ناصر کے لئے جیتا ہوں
اس کا کیا جانیئے کیا حال ہوا میرے بعد
~*~*~*~*~*~*~*~*~*
میری پسندیدہ غزل
میری سب ممبرز سے گُزارش ہے کے اپنی پسندیدہ غزلیں اور اشعار یہاں پو سٹ کریں
شکریہ
اگر وہ پیار کرتا تو.....
اسلام علیکم
سب سے پہلے تو میں یہ عرض کرنا چاہونگا کے کہ میں آپ لوگوں سے
ناراض ہوں جو آپ لوگوں نے مشاعرے کا انعقاد کیا اور مجھے مدعو نہیں کیا
خیر کوئی گل نہیں ہم بنا دعوت کے ہی آگئے اور ہم یہاں انٹری ایک غزل سے
کرینگے اور غزل ہے ہمارے فیورٹ شاعر میر تقی میر کی.امید ہے آپ لوگوں
کو پسند آئے گی.بھائی مجھے تو بہت پسند ہیں آپ لوگوں کی رائے تو
بعد میں پتا چلینگے.....شکریہ
فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں ، خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منھ بھی چھپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے
گئی عمر در بندِ فکرِ غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے، کیا کر چلے
By, Mir Taki Mir
Bookmarks