السلام علیکم فصیح بھائی
ہم مصروفیت کے باعث آپ کا پچھلا پارٹ بھی نہ پڑھ سکے تھے
لیکن اس دفعہ وقت نکال کر آپ کے سلسلہ کا اس حصہ کا مطالعہ کیا ہے
بلاشبہ ایک طرف آپ نے اس تحریر پر بڑی جانفشانی سے کام کیا ہے
اور آپ کی تڑپ آپ کی تحریر سے ہی واضح ہورہی ہے
نیز جس طرح آپ نے ان احادیث پاک کو جمع کرکے ترتیب دی ہے یہ بھی خاصۃ مشقت طلب کام ہے
اور ہر حدیث کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے جن میں بڑی حد تک سچائی بھی موجود ہے
جن کو ہم اپنے آس پاس اور اس تیز رفتار میڈیا پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں
لیکن کیوں کہ قیاس میں خطا کےامکان کو رد نہیں کیا جاتا اس لئے ان قیاس میں غلطیاں بھی ہوں گی
لیکن بہر حال آپ کی تحریر آج کے مسلمانوں کو جھنجوڑنے کے لئے بہت ہی زبردست کاوش ہے
دوستوں سے گذارش ہے کہ اس تحریر پر داد و تحسین کے ساتھ ساتھ سب سے اہم اور ضروری امر یہ ہے کہ
ہم لوگ ان احادیث پاک کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیں
اوراپنا اپنا محاسبہ بھی کریں
دیکھیں ہم لوگ کس راہ پر چل رہے ہیں اورہمارے اعمال کیا ہیں
اگر آج موت ہمیں ابدی زندگی کی طرف لے جاتی ہے
تو کیا ہم اپنے ان اعمال کے ساتھ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے
ہم چاہیں نہ چاہیں ہمیں ایک نہ ایک دن جانا ہی ہے
اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں تو ہمیں اپنی سوچیں بدلنی ہوں گی
اپنی نفسانی خواہشات کو دبانا ہوگا
یاد رکھیے کہ جس طرح آپ کاروباری ،تعلیمی یا پیشہ وارانہ زندگی میں ترقی حاصل کرنے کے لئے
اپنے قیمتی وقت ،پیسہ اور بہت ساری دنیاوی عیش و آرام کی قربانیاں دیتے ہیں
تب جاکر کوئی مقام حاصل کرتے ہیں
اور جو شخص اپنے اپنے شعبہ میں جتنی زیادہ قربانیاں اور محنت اور مشقت اٹھاتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہوتا ہے
اور اسی طرح بالترتیب دیگر افراد بھی متعلقہ شعبہ میں جتنی کم سے کم مشقت اور کم قربانیاں دیتے ہیں وہ اس شعبہ میں اتنا ہی پیچھے رہ جاتے ہیں
حتی کے کوئی آفس بوائے چپڑاسی مزدور وغیرہ بن جاتا ہے یا بے روزگاری اور فاقہ کشی کی زندگی گذارتا رہتا ہے
بس اسی طرح آخرت کی حقیقت سمجھ لیں کہ جس شخص نے جتنی قربانیاں دینی ہیں اور جتنی مشقتیں کرنی ہیں وہ آخرت میں اتنا ہی مقام پائے گا
آخرت میں بھی کوئی مفلس ہوگا تو کوئی امیر و کبیر ہوگا اور کوئی متوسط ہوگا
لیکن ایک بات ہے کہ اس دنیاوی زندگی میں تو امیر و غریب یا نوکر شاہی کا فرق جدی پشتی بھی ہوتا ہے
مگر آخرت کی زندگی بنانا یا بگاڑنا یہ سب کےاپنے اپنے ہاتھ میں ہے
اور پھر یاد رکھیے کہ جس طرح دنیاوی ترقیاں حاصل کرنے میں مشقت ہے اسی طرح آخرت کی کامیابی حاصل کرنے میں بھی مشقت ہے
اور یہ مشقت دنیاوی مشقت سے بالکل جدا ہے کیوں کہ آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اٹھانے والی مشقت کا اگر ایک فائدہ آخرت کی کامیابی ہے
تو دوسری طرف اس شخص کو وہ روحانی سکون بھی حاصل ہوتا ہے کہ جس کے لئے انسان لاکھوں کروڑوں خرچ کردیتا ہے
لیکن سکون کی قیمتی نعمت سے محروم رہتا ہے
فصیح بھائی آپ کی اس کاوش پر ہم آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں
اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے. آمین
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثمہ آمین
Bookmarks