رمضان کا مہینہ اور تلاوت قرآن کریم
بسم الله الرحمن الرحيم
ماہ رمضان یہ نزول قرآن کا مہینہ ہے ، اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اس ماہ مبارک میں قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں ـ ہمارے اسلاف ماہ رمضان میں اس کا خاص اہتمام کرتے تھے ، محسن انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن کا دور کرتے ، وہ آپ کو پورا قرآن دہراتے تھے ـ
سلف صالحین بغیر تفکر کے شعر وشاعری کی طرح قرآن نہیں پڑھتے تھے بلکہ وہ کلام الہٰی کو پوری توجہ سے پڑھتے اور اس سے ان کے متاثرہوتے ـ
محسن انسانیت رسول کرام ﷺ کی سیرت کو پڑھیے ، آپ پر پورا قرآن نازل کیا گیا ـ لیکن تلاوت قرآن کے وقت آپ کی کیا کیفیت ہوتی ـ
صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ
اللہ کے نبی نے مجھ سے کہا '' اقرا علي '' مجھے قرآن پڑھ کر سناؤـ عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے کہا آپ ہی پر قرآن نازل کیا اور آپ ہی پڑھ کرسنائیں ـ رسول اکرمﷺ نے فرمایا '' اني احب ان اسمعه من غيري ـ '' مجھے دسروں سے قرآن سننا اچھا لگتا ہے ـ صحابی رسول کا بیان ہے ـ میں سورہ نساء کی تلاوت شروع کی ـ اور جب اس آیت پر پہنچا '' فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدً '' ـ اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گئے ـ اور آپ کو تمام لوگوں پر گواہ بنا دیں گئے ـ جب اللہ کے نبی نے یہ آیت سنی تو کہا ـ حسبك بس کافی ہے ـ صحابی رسول عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ جب میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھیں اشکبار تھیں ـ
امام بیہقی ابوہریرہ سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ صحابی رسول بیان کرتے ہیں کہ : جب قرآن کی یہ آیت '' أَفَمِنْ هَـٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ ,وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ ـ 59-60 ـ نازل ہوئی ـ(کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو روتے نہیں )ـ اہل صفہ رونے لگے صحابی رسول راوی حدیث کا بیان ہے کہ پھر ہم لوگ بھی رونے گے ـ اس موقع پر اللہ کے نبی نے فرمایا '' لا يلج النار من بكي من خشية الله'' جو اللہ کے ڈر سے روئے وہ جہنم میں نہیں جائے گا ـ
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ سورة المطففين کی تلاوت شروع کی ـ جب ''يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَ*بِّ الْعَالَمِينَ ـ (اس عظیم دن کے لئے (5) جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ـ ) تک پہنچنے رونے لگے یہاں تک کہ گر گئے اور اس کے آگے نہ بڑھ سکے ـ (التذکار ص 188)
مزاحم بن زفر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام سفیان الثوری رحمہ اللہ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی ـ سورة الفاتحة کی تلاوت شروع کی ـ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اس پر پہنچے تو رونے لھے حتی کہ ان کی قرات یہیں ختم ہو گئی ـ پھر دوبارہ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ*بِّ الْعَالَمِينَ سے پڑھنا شروع کیا ـ
ابراہیم بن اشعث بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات فضل بن عیاض کو سورة محمد پڑھتے ہوئے سنا ـ آپ رو رہے تھے ـ اور باربار اس آیت کو پڑھتے جا رہے تھے ـ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِ*ينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَ*كُمْ ـ اور فضل کہ رہے تھے کہ ہم تمہاری حالتوں کو بھی جانچ کر لیں اور دہرا رہے تھے ـ وتبلو اخبارنا ـ مولی تو ہماری حالتوں کی جانچ کرے گا ـ ان بلوت اخبارنا ـ اگر تو نے ہماری حالتوں کی جانچ کی تو ہمیں رسوا کردے گا ـ ہمارے عیوب کا پردہ چاک کردے گا ـ اگر تو نے ہماری حالتوں کی جانچ کی تو ہمیں ہلاک کردے ـ ہمیں عذاب دے گا ـ اور رو رہے تھے ـ
Bookmarks