ویب ڈیسک: سمندری مخلوق شارک کے دانت ٹوٹنے پر دوبارہ نکل آتے ہیں جب کہ عین اسی طرح کے جین اب انسانوں میں بھی دریافت ہوئے ہیں لیکن وہ غیر سرگرم ہیں۔
یونیورسٹی آف شیفلڈ کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ جو جین شارک اور دیگر مچھلیوں کے ٹوٹنے والے دانت دوبارہ اُگنے میں مدد دیتے ہیں عین انہی جین کا نیٹ ورک انسانوں میں بھی موجود ہے اور اگر انہیں سرگرم کردیا جائے تو ہم اپنے کھوئے ہوئے دانت دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق دانت اگانے والے اس جین کے خاص خلیات اس وقت بے عمل یا ختم ہوجاتے ہیں جب ہمارے دودھ کے دانت ٹوٹ کر دانتوں کا دوسرا مجموعہ اگتا ہے۔ ماہرین کے مطابق انسان اور مچھلی کا جد ایک مشترکہ جاندار تھا اور 45 کروڑ سال قبل ان دونوں کی ارتقائی راہیں الگ ہوگئی تھیں۔ اسی لیے مچھلیوں کی طرح ہمارے پاس بھی اپنے دانت دوبارہ اگانے والے جین موجود ہیں اور ان کا سوئچ آن کرکے انسان نئے دانت اگا سکتا ہے۔اس کے لیے ماہرین نے کیٹ شارک کے بیضے ( ایمبریو) کا جائزہ لیا اور دانت تشکیل کرنے والے تمام مراحل میں موجود جین کا جائزہ لیا ہے۔ شارک اور دیگر اقسام کی مچھلیوں میں دوبارہ دانت اگانے والے خلیات ڈینٹل لیمینا کہلاتے ہیں جو شارک کے بار بار ٹوٹنےوالے دانتوں کو اگاتے رہتےہیں اور یہ عمل بہت تیز ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق اب یہی جین انسانوں میں بھی دریافت ہوئے ہیں لیکن وہ غیرسرگرم اور خوابیدہ ہیں یا پھر نوجوانی میں قدم رکھتے ہوئے یہ خلیات ختم ہونے لگتے ہیں لیکن جین تھراپی کے ذریعے ہم دوبارہ اپنے دانت اگاسکیں گے۔
Bookmarks