یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں گیارہویں جماعت میں تھی۔جہاں سکول سے چُٹھکارا حاصل کرنے کی خُوشی تھی۔وہیں کالج جیسی مصیبت میں مبتلا ہونے کا غم بھی تھا۔سوچا تھا کہ کالج بہت سی مشکلات سے بھرے ایک گھڑے کا نام ہوگا۔کوئی جان پہچان کی لڑکی نہیں ہوگی۔پتہ نہیں کسی کے ساتھ بنے گی کہ نہیں?پتہ نہیں اُستاد ہم بچارے بچوں سے کون کون سے بدلے لیں گے? اور نجانے کون کون سے وہمات میرے دل میں گھر کئیے ہوئے تھے۔خیر ہمارے کالج کا پہلا دن بھی آ پہنچا۔میں کالج کے لیئے تیار ہوگئی۔نئے اُجلے چمکدار یونیفارم میں ملبوس جب میں نے خُود کو آئینہ میں دیکھا تو ایسا لگا جیسے کسی بڑی سی شپ کا کپٹن اپنا گولڈ میڈل لینے کو جارہا ہو۔پھر میں نے اپنا بیگ تھاما۔زندگی میں پہلی بار کم بوجھ کا بستہ اُٹھا کر اچھا لگ رہا تھا۔لوجی جب بوجھ کم ہوا تو ہماری چال میں بھی ایک شان پیدا ہو گئی۔پل بھر کے لیئے جیسے سارے خوف دور بھاگ گئے ہوں۔ابھی تو میں خُود کو رشک بھری نظروں سے دیکھ ہی رہی تھی کہ آپی کی آواز آئی جو ساتھ میں یہ پیغام لائی کہ میری گاڈی آگئی ہے۔یہ سُنتے ہی کھانسی،نزلہ،زکام،بُخار اور پیٹ درد جیسے کتنے بہانے میرے دل میں کود آئے۔مگر پھر میں نے خُود کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ جو ہوگا اچھا ہوگا۔
خیر پھر میں اپنا بستہ اور اپنی بہشتی ماں کی دُعائیں لے کر گاڈی میں آ بیٹھی۔گاڈی چل پڑی۔میرے گھر سے کالج کا راستہ بیس منٹ کا تھا۔لیکن یہ بیس منٹ میں نے کیسے گُزارے میں ہی جانتی ہوں۔ان بیس منٹوں میں میں نے پانچ بار اپنے بیگ کو مختلف طریقہ سے ترتیب دی بلکل ایسے ہی جیسے کوئی جانباز سپاہی دُشمنوں کے علاقے میں داخل ہونے سے پہلے اپنے ہتھیاروں کو مختلف انداز میں رکھتا ہے۔یہ دیکھنے کے لیئے کہ یہ ترتیب بہتر ہے یاں دوسری جیسے وہ یہ سوچ رہا ہو کہ فلاں ہتھیاراس ترتیب میں سے نکالنے میں کتنا وقت لگے گا۔میرا حال بھی کُچھ ایسا ہی تھا۔میری اس بے چینی کو میرے ڈرائیور انکل بھانپ گئے۔وہ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے بولے بیٹا آپ جیسے ہو سیٹ ہو۔بس ہر کام کو اپنے طور پر اچھا کرنے کی کوشش کرنا اور یاد رکھنا کہ وہاں تمھارا مقابلہ صرف ایک ہی انسان کر سکتا ہے۔میں نے جھٹ سے پوچھا وہ کون ہے?وہ بیک ویو میرر میں سے میری آنکھوں میں نہایت سنجیدگی سے جھانکتے ہوئے بولے کہ وہ انسان تم ہی ہو۔مجھ کو اُن کی ہر بات کی سمجھ آئی سوائے اس آخری بات کے۔
خیر انکل مجھ کو کالج کے دروازے پر اُتار کر آگے چل دیئے۔میں نے کالج کے گیٹ پر کھڑے ہو کر اتنا لمبا سانس ایسے لیا جیسے کہ مُجھ کو بنا آکسیجن سلنڈر کے سمندر میں جانا پڑرہا ہو۔میں اللہ کا نام لے کر کالج میں داخل ہو گئی۔کالج میں داخل ہوتے ہی میں نے اپنے ہی جیسی یونیفارم میں ملبوس اپنی ہی جیسی مخلوق کو دیکھا۔میں نے دروازے پر کھڑے خاکی وردی میں ملبوس انکل کو اپنی کلاس بتاتے ہوئے کلاس کا راستہ پوچھا۔انھوں نے بہت اُداس لہجے میں مجھ کو میری کلاس کا راستہ بتایا۔تھوڈی دیر بعد میں اپنی کلاس کے سامنے تھی۔کلاس میں مجھ سے پہلے موجود بارہ لڑکے لڑکیوں کو دیکھ کر میں نے ایک مسکراہٹ چہرے پر لانے کی کوشش کی جس میں میں پوری طرح ناکام رہی۔خیر میں نے سب کو سلام کرتے ہوئے اپنا بیگ ایک سیٹ پر رکھ دیا۔وسلام سے بارہ آوازیں میرے کانوں میں گونج گئی۔میرے بعد اور بھی کئی لوگ آتے گئے اور سیٹیں سنبھالتے گئے۔اب ہم سب کہیں نہ کہیں اسمبلی کا انتظار کرنے لگے۔پورے نو بجے گھنٹی بج گئی۔مُجھ کوجیسے ہی تلاوت کی آواز آئی میں اپنی سیٹ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔پہلے تلاوت قرآن ہوئی۔پھر چار لوگوں نے مل کر ترانہ پڑھا۔میں بھی اُن کے پیچھے پیچھے پڑھنے لگی۔جیسے کہ سکول میں پڑھتی تھی۔مجھ کو پڑھتا سُن کر دو لڑکے اور ایک لڑکی ہسنے لگی پر میں نے پرواہ نہ کی۔جب اسمبلی ختم ہو چُکی تو میں اپنی سیٹ پر بیٹھنے کو مُڑی تھی کہ میں نے دیکھا کہ کوئی بھی میرے سوا کھڑا نہ ہوا تھا۔اب مجھ کو اُن لوگوں کے ہسنے کی وجہ سمجھ آئی اور بات کے سمجھ آتے ہی مُجھ کو خُود پر بُہت غصہ آیا۔مگر کُچھ نہ کہا۔
ہماری کلاس میں ٹیچر کی آمد ہوئی۔مس فریدہ جلیل اُن کا نام تھا۔بُہت ہی شاندار شخصیت کی مالک تھی وہ۔ہم سب نے اُن کو سلام کیا اور اُنھوں نے اپنی رعُب دار آواز میں سلام کا جواب دیا۔اُنھوں نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے پم سب کو کُچھ اس ادا سے دیکھا کہ ہم سب نے خُود کو اپنی اپنی جگہ کسی بڑے جُرم کا مُرتکب پایا۔مس نے ہم سب کو اپنا تعارف دیا۔پھر باری باری ہم سب کا نام وغیرہ پوچھنے لگی۔سب کھڑے ہوتے جارہے تھے اور اپنا نام پتہ سب سے شیئر کرتے جارہے تھے۔میں بھی اپنی باری پر کھڑی ہوگئی۔جب میں نے اپنا نام بتایا تو سب ہسنے لگے۔تب زندگی میں پہلی اور آخری بار مُجھ کو میرا نام بُرا لگا۔میں ابھی سب کی ہنسی میں سب کا جھوٹا ساتھ دینے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ کسی نالائق نے پیچھے سے کہہ دیا کہ اوو سُلطانہ ڈاکو۔یہ بات سُنتے ہی سب کی ہنسی کا فوارا پھر سے چُھوٹااس بار میں سب کو گھوم کر اس طرح دیکھا کہ جیسے میں دل ہی دل میں سب کو کچا کھانے کا ارادا کر چُکی ہوں۔میری اس حرکت سے سب کی ہنسی کو بریک لگی۔
خیر یونہی ایک کے بعد ایک اُستاد آتے رہے اور ہم سب کا حال احوال پوچھتے ہوئے سب کو نیا سبق پڑھاتے گئے۔اس طرح گیارہ بج گئےاور ہم کو بریک ہو گئی۔میں پاگل لڑکی ایک بڑے خطرے سے انجان کینٹین کی جانب چل پڑی۔جب میں اپنے پیٹ پوجا کا سامان لے کر واپس آرہی تھی تو میری ملاقات میرے سینئرزسے ہو گئی۔جی میں اس ہی خطرے کی بات کر رہی تھی۔چار لڑکوں اور تین لڑکیوں پر مشتعمل یہ گُروپ میرے گرد ایسے چکر لگانے لگے جیسے کسی پُرانی ہندی فلم میں چار پانچ گونڈے ایک معصوم ہیروئن کے گرد چکر لگاتے ہیں۔لیکن جب یہ سب ہورہا تھا تو میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب میں اپنی ریگینگ تو ہر گز نہ ہونے دوں گی۔یہ خیال آتے ہی میں اُن کی کسی شرارت بھری حرکت کا انتظار کرنے لگی۔جب وہ میرے گرد پانچ چکر لگا چُکے تو میں نے کہہ دیا کہ اب بس بھی کرؤ میں بور ہورہی ہوں۔میری یہ بات سُنتے ہی سب رُک گئے۔اُن میں سے ایک لڑکے نے میرا نام پوچھا۔میں نے کہا سُلطانہ میرا نام ہے۔یہ سُنتے ہی وہ لڑکا بولا ارے تمھارا نام بھی سُلطانہ ہے۔مُجھ کو بھی کُچھ سوجھی میں نے اُس کے مذاق پر مذاق کرتے ہوئے بولا کیوں آپ کا نام بھی سُلطانہ ہے?یہ سنتے ہی سوائے اُس کے باقی سب ہسنے لگے۔وہ اپنا سیلف کانفیڈینس بحال کرتے ہوئے بولا واہ سمارٹ گرل۔میں نے بھی اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ کاش میں بھی آپ کہ بارے میں یہ کہہ پاتی۔وہ بولا اگر آپ چاہیں تو کہہ سکتی ہیں۔مُجھ کو اور شرارت سوجھی میں نے قدرے مسکراتے ہوئے کہا اوہ مُجھ کو نہیں پتہ تھا کہ آپ سمارٹ گرل ہو۔اُس کا سارا گُروپ پھر سے ہسنے لگا۔
جیسے ہی یہ بات چیت ختم ہوئی ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ سے کولڈرنک لے لی ایک نے چاکلیٹ اور ایک نے چپس کا پیکٹ لے لیا۔جب وہ میرے ہاتھ خالی کر چُکے تو باقی کے چار لوگوں نے مُجھ کو کھانے کی مزید چیزیں بتائیں اور وہ سب چیزیں لانے کو کہا۔میں بُہت شرافت کے ساتھ واپس کینٹین پر گئی اور سب چیزیں اُن کو لا کر دے دیں۔وہ چیزیں کھاتے جارہے تھے اور ساتھ ساتھ میرا انٹرویو کر رہے تھے۔جب انٹرویو کے ساتھ وہ کھانے کی چیزیں بھی ختم کر چُکے تو ایک لڑکا بولا کہ تم نے یہ سب چیزیں اس لیئے ہم کو لا کر دیں کیوں کہ تم ڈر گئی تھیں? میں نے بُہت لاپروہی سے جواب دیتے ہوئے کہا۔بات دراصل یہ ہے کہ میری امی نے کہا تھا کہ بیٹا اگر آج کے دن آپ سات بھوکوں کو کھانا کھلاؤ گئے تو اللہ آپ کی ہر مصیبت ٹال دے گا۔میں تو اپنا کھانا لے کر بھوکوں کو ڈھوڈنے جارہی تھی کہ راستے میں آپ لوگ ٹپک پڑے۔تو اب اس میں ڈر والی کیا بات ہوئی۔میرا یہ جواب سُن کر اس بار سب مُسکرا اُٹھےاور اپنا تعارف کروایا اس آفر کے ساتھ کہ اگر مُجھ کو کوئی بھی کام ہو تو اُن سے کہہ دوں کام ہو جائے گا۔میں نے اس آفر پر اُن کا شُکریہ ادا کیا۔میں جانے والی تھی کہ اُنھوں نے کینٹین کے لڑکے سے کہہ کرمُجھ کو ایک عدد بوتل منگوا دی۔پر میں نے لینے سے انکار کر دی اُن کو یہ بتاتے ہوئے کہ میری امی نے مانا کیا ہے کسی اجنبی سے کوئی چیز لے کر کھانے سے اور ایسا کرنے والے گندے بچے ہوتے ہیں۔یہ سُن کر سب کا منہ کُھلے کا کُھلا رہ گیا۔میں اُن کے مُنہ کو کُھلا چُھوڈ کر واپس اپنی کلاس میں آبیٹھی۔کیونکہ ساری بریک تو اس ہی میں گُزر گئی تھی۔تھیں تو میں تب خالی پیٹ مگر دل آدھا خُوشی سے بھرا ہوا تھا۔خیر باقی کا دن بھی جیسے تیسے کٹ گیا۔دو بج گئے۔ہم کو چُھٹی ہو گئی۔میں بھی آکر اپنی گاڈی میں بیٹھ گئی۔آتے ہی میں نے پُر جوش انداز میں ڈرائیور انکل کو سلام کیا۔وہ جواب دیتے ہوئے بولے کہ لگتا ہے تمھارا دن اُتنا بھی بُرا نہیں تھا جتنا تم نے سوچا تھا۔میں اُن کی بات پر مُسکرا اُٹھی اور ہم گھر واپس آگئے۔
اُمید ہے کہ آپ سب کو میرے کالج کا پہلا دن پڑھ کر اچھا لگا ہو گا اور ساتھ ہی آپ سب کو بھی اپنے کالج یاں سکول کا پہلا دن یاد آیا ہوگا۔میرا تعلیمی دور تو ایسی کیں یادوں سے بھرا ہوا ہے۔آپ لوگوں کے ساتھ پھر کبھی کوئی اور یاد بانٹنے آؤ گی۔کیونکہ اس وقت کُچھ اور یادیں ٹائپ کرنے بیٹھی اور آپی آگئی تو یہ تھریڈ بھی ایک یاد بن جائے گا۔اُمید ہے کہ آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے۔میں اب چلتی ہوں۔آپ سب اپنا خیال رکھنا۔آپ لوگوں کی رائے کی مُنتظر۔
اللہ حافظ
سُلطانہ مُصطفی
Bookmarks