سیلاب، نقصانات، عذاب بھی اور غفلت بھی
آئی ٹی دنیا کے پرانے اور سینئر ممبر مجھے بہت اچھے سے جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہونگے کہ میں نے گزشتہ سالوں میں پاکستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں بڑے زلزلوں اور پاکستان میں سیلابی صورتحال پر کئی اہم اور بڑے تھریڈز لکھے ہیں۔
ایک بات جو انتہائی اہم اور ضروری ہے وہ زہن نشین کر لیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اگر سیلاب یا ایسی کسی آفت کا اندیشہ ہو تو وہ لوگ بہت پہلے سے اسکی تیاریاں کرتے ہیں کیونکہ یہی اچھی منصوبہ بندی کی نشانی ہوتی ہے، میں آپکو اسلام سے بھی ثابت کر کے بتا سکتا ہوں کہ مثبت اور اچھی منصوبہ بندی بھی عین اسلام کے مطابق ہے جیسا کہ غزوہ خندق کے موقع پر ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق نہ صرف خود کھودی بلکہ اپنے دوستوں اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین سے بھی کھدوائی چنانچہ ایسی چیزوں کی قبل از وقت پلاننگ کرنا، کوشش و عمل کرنا ایک احسن عمل ہے- لیکن نام نہاد اسلامی مملکت پاکستان میں ڈرامے زیادہ اور کام بہت کم ہوتے ہیں، اب زلزلے پر بات کرنا نہیں چاہتا کیونکہ رمضان کے بابرکت ماہ میں دس سال پہلے جو زلزلہ آیا تھا وہ اللہ پاک کی طرف سے وارننگ تھی، عذاب تھا یا ایک آزمائش تھی اس پر مختلف لوگ مختلف آراء رکھتے ہیں مگر انصاف سے دیکھا جائے تو سمجھ آ جاتی ہے وہ کیا تھا
آج یہاں میرا بنیادی مقصد سیلاب پر کچھ گفتگو کرنا ہے- میری پیدائش سے بھی پہلے یہاں سیلاب آتے رہے اور میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ادھر یہ سب دیکھنے، سننے، پڑھنے کو مل ہی رہا ہے، سن دو ہزار دس کا سیلاب جس سے کم و بیش ایک کروڑ پاکستانی مسلمان اور دیگر لوگ متاثر ہوئے کیا وہ کم تھا?? کیا وہ عذاب تھا یا آزمائش یا ہماری غفلت یہ بھی سمجھدار لوگوں کو بہت بہتر پتہ ہوگا۔ زلزلے، سیلاب وغیرہ تو عذاب ہوں یا عذاب نہ ہوں البتہ پاکستان پر مسلط حکمران بلکہ نااہل اور جاہل ترین حکمران ضرور اللہ پاک کی طرف سے بدترین عذاب ہیں پاکستانی عوام پر،، اور عذاب کسے کہتے ہیں?? انکے تو ڈرامے اور بھوک و ہوس ختم ہی نہیں ہوتی اور نجانے یہ ملک کا سرمایہ لوٹ لوٹ کر قبروں میں ساتھ لے کر جانے کا پروگرام رکھتے ہیں یا ایسا کچھ کہ شرم بھی نہیں آتی،، جمہوریت جیسے ڈرامے سے لوگوں کو بیوقوف بنا بنا کر اور فنکاریاں دکھا دکھا کر میرے خیال میں شیطان بھی ایک لمحے کیلیے انھیں سیلوٹ کرتا ہوگا کہ واہ رے واہ تم تو میرے بھی استاد نکلے
کیا کبھی اپ نے دنیا میں کوئی ایسا ملک دیکھا ہے جہاں ہر سال سیلاب آتے ہوں اور وہاں صرف ڈرامے چلتے ہوں?? بہت سے ممالک امداد بھیجتے ہیں اور بہت سے درد رکھنے والے پاکستانی ادارے، تنظیمیں اور لوگ بھی دل کھول کر مدد کرتے ہیں لیکن حیا نہیں آتی تو فنکار، ریاکار اور عذاب خداوندی والے حکمرانوں کو کہ کچھ ڈیم اور ایسی ضروری جیزوں کا بھی تھوڑا بہت کر لیا جائے- جتنا پیسہ اور سرمایہ ہر بار سیلاب کے دوران اور بعد میں ضائع کیا جاتا ہے اگر پہلے ہی ڈیم اور ضروری نالے وغیرہ کھود کر بہتر انتظامات پر لگایا جائے تو بعد والے نقصانات سے لاگت بھی بہت کم آئے اور بہت عرصہ کیلیے ایسے سیلابوں سے بھی جان چھوٹ جائے- پھر ایک مسئلہ یہ کہ پاکستان میں پانی کی کمی کی خطرناک صورتحال بھی واضح ہے اور انڈیا نے ہمارے دریائوں پر اتنے زیادہ ڈیم بنا لیے ہیں جبکہ ایک تو ان نااہل حکمرانوں سے انڈیا کے بارے میں کھل کر کوئی بات نہیں ہوتی اور باقی رہی سہی کسر یہاں ڈیم نہ تعمیر کر کے اتنا زیادہ بارشوں کا پانی ضائع کر کے پوری کر دی جاتی ہے- ویسے حد ہے، اتنا قیمتی پانی جس سے تباہی ہو جاتی ہے اور جو بالآخر ضائع ہو جاتا ہے اسی کو ڈیم بنا کر سٹور نہیں کیا جاتا، بجلی بنانے کیلیے استعمال نہیں کیا جاتا، فصلوں اور آبپاشی اور دیگر ضروری کاموں کیلیے استعمال نہیں کیا جاتا- کیونکہ جب بارشیں نہ ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ فصلیں نہ ہونے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے اور جب اللہ پاک بارشیں نازل کریں تو لوگ کہتے ہیں سیلاب سے نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے- کسی حال میں خوشی نہیں
اللہ پاک نے جب عقل، شعور، فہم و فراست دی ہے تو اسے میرے خیال میں استعمال کر لینا چاہیے نہ کہ بندہ جاہل مطلق بن کر ہر بار دیکھتا ہی رہے، اصل کام ارباب اقتدار کا ہی ہے جو خلافت جیسے سسٹم سے تو نفرت رکھتے ہیں اور ڈرامہ جمہوریت کے گن گاتے ہیں مگر ڈلیور کچھ بھی نہیں کرتے اور غریب انسانوں، مسلمانوں، کسانوں اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کا بیڑہ غرق کر کے رکھتے ہیں
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حکمران اتنے بے حس اور سنگ دل ہیں کہ خود تو کچھ کرنا نہیں اور جو لوگ کچھ اچھا اور بہتر کرنے کے صدق دل سے خواہشمند ہوتے ہیں یہ انھیں بھی کچھ کرنے نہیں دیتے- کسی کو مروا دیتے ہیں تھریٹ شو کر کے اور کسی کو اٹھوا لیتے ہیں، انکی ساری انرجیز اور محنت ایسی گھٹیا حرکتوں پر ہی صرف ہوتی ہیں باقی انھیں کسی پاکستانی کے جان و مال اور عزت و حرمت سے بلکہ پاکستان جیسی نعمت سے لینا دینا کچھ نہیں- افسوس ان لوگوں پر بھی ہے جو ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں استعمال ہو کر بے گناہ شہریوں پر زیادتی کرتے ہیں
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اس ملک کے حکمران جھوٹی بکواسیں کرنے، ڈرامے بازیاں کرنے اور فوٹو سیشنز سے ہی باہر نہیں نکلے، ان سے اچھے تو وہ عیسائی حکمران ہیں جو کم از کم اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی خلقت کیلیے کچھ اچھا تو کر ہی رہے ہیں بھلے ہی انکا مذہب اسلام نہیں ہے- یہاں تو اللہ پاک معاف کریں حیا نام کی شے ہی نہیں ہے
میں نے آئی ٹی دنیا میں اپنے مشہور مضامین دجال کون ہوگا کے پانچ پارٹس میں بھی مختلف جگہوں پر ان نا اہل اور فرعون صفت حکمرانوں پر بات کی تھی اور میری کہی گئی ہر بات بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے
اس ملک میں کچھ نہیں ہو سکتا جب تک انصاف، مساوات و برابری نہیں ہوگی نہیں تو ایک کے بعد ایک ایسے ہی کارنامے اور چیزیں رونما ہوتی رہیں گی، باقی عوام میں اتنا شعور ہوتا تو ایسے سنگ دل اور تجوری بھرنے والے لوگوں کو اپنا مسیحا نہ بناتی اور پوجتی- خیر جہاں لوگ ایک بریانی کی پلیٹ کیلیے اپنا ووٹ بیچ دیں ان پر ایسے عذاب حکمرانوں نے ہی تو مسلط ہونا ہے نہ کہ عمر بن عبدل عزیز جیسا صالح اور مرد مومن حکمران۔ جو عوام اور حکمران اللہ پاک کے نظام کو پسند تک نہیں کرتے اور کرنے والوں کو کوستے ہیں ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے شائد اب بھی کم ہے
اللہ پاک مجھے اور سب کو صحیح راہ پر چلنے والا بنائیں، میرے اختیار میں جو ہے میں نے اللہ پاک کو اسکا حساب اور جواب دینا ہے اور میں اپنی طرف سے پوری محنت اور کوششیں اچھے کاموں کیلیے کرتا رہتا ہوں لیکن اتنے بڑے لیول ہر کرنا یہ انھی کا کام ہے جو تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں- لیکن خیر ہے اے نا اہل اور اسلام و پاکستان دشمن حکمرانو، سب یہیں رہ جائے گا ان شاء اللہ،، آپ کو سمجھ آ جائے گی اسلام اور پاکستان کو نقصان پہچانے پر، پاکستان کے ساتھ جتنا برا آپ لوگ کر سکتے ہو اس سے بڑھ کر لگے ہو لیکن احادیث میں بتائی گئی پیشگوئیوں نے ہر لحاظ سے پورا اور مکمل ہونا ہے،، آپ کے فتنوں سے بھی جان ضرور چھوٹے گی اور ساری زندگی اپ نے بھی اس دنیا میں نہیں رہنا
Bookmarks