ابو مسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا ،کیا رسو ل اللہ اپنے جوتوں میں نمازپڑھتے تھے ؟انھوں نے کہا :ہاں ۔(بخاری:٣٨٦،مسلم:٥٥٥)
اور دوران نماز معلوم ہو جائے کہ میرے تو جوتے کو گندگی لگی ہوئی ہے تو اسی وقت جوتے کو اتار دینا چاہئے ۔(ابو داود:٦٥٠،اس کو امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے (صحیح ابن خزیمہ ١٠١٧)
سیدنا بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں قبرستان میں چل رہا تھا اچانک ایک آدمی نے میرے پیچھے سے آواز لگائی کہ اے جوتیاں پہننے والے !جوتے اتار دوتومیں نے رسول اللہ ؐ کو دیکھا اور جوتے اتار دئیے (ابو داود:٣٢٣٢حافظ ابن حجر نے کہا :اسنادہ صحیح (الاذکار :١/١٤٣)حافظ نووی نے کہا :باسناد حسن ۔(خلاصۃ الاحکام :٣٨١٨)ابن عبد الھادی نے کہا کہ امام احمد نے کہا :اسنادہ جید''(المحرر فی الحدیث :٥٤٨)اگر قبرستان میں کانٹے وغیرہ ہوں تو پھر جوتوں سمیت قبرستان میں چل سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔بعض دلائل سے جوتوں سمیت قبرستان میں چلنے کا جواز ملتا ہے ۔(بخاری:١٣٣٨،مسلم:٢٨٧٠)
لیکن ایک بات یاد رہے کہ قالینوں پر جوتوں سمیت چلنے پھرنے سے اشیاء کا نقصان ہوتا ہے ۔
لہذا جس مسجد میں قالینیں ہو اس پرجوتوں سمیت نماز نہیں پڑھنی چاہئیے
کیونکہ اشیاء کا ضیا بھی مستحسن نہیں ہے ۔ بلکہ اسراف میں شمار ہوتا ہے ۔
Bookmarks